اپنے محلے کے مساکین اور فقراء کوزکات دینا بہتر ہے یامجاہدین فی سبیل اللہ کو ؟
ترجیحات موقع مناسبت سے مختلف ہوسکتی ہیں،مصارف زکات میں جس جگہ زیادہ ضرورت ہو اور زیادہ فائدہ ہواسی جگہ زکات کی رقم صرف کرنی چاہیے،رشتہ داروں میں یا پڑوسیوں میں اگر کوئی تنگ دست ہے تو اسے زکات دینا زیادہ بہتر ہے،کیونکہ اس میں زکات کے ساتھ صلہ رحمی اور پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کااجر ثواب بھی ملتا ہے،اسی طرح اگرکہیں دینی مدارس میں ضرورت ہے تو وہاں پر بھی زکات وصدقات دینا زیادہ بہتر ہے،کیونکہ زکات کے ساتھ دینی کام میں تعاون کا ثواب ملے گا،اسی طرح اگر کوئی تنگ دست اور مقروض ہے تو عام فقراء کے بنسبت اسے زکات کی رقم دینی چاہیے تاکہ اس کا قرض اتر جائے،اسی طرح اگر کہیں شرعی جہاد ہورہاہے،اور وہاں مجاہدین کو مالی امداد کی ضرورت ہے تو زکات کی رقم ان مجاہدین پر صرف کرنا زیادہ بہتر ہے،غرض یہ ہے کہ موقع محل اور ضرورت کے اعتبار سے دیکھ لیا جائے کہ کہاں ضرورت زیادہ ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئےزکات اور صدقات وہاں صرف کیے جائیں۔
البتہ عام حالات میں مدارسِ دینیہ کا تعاون کرنا زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں، ان کو مالی امداد کے ذریعے مضبوط کرکے باقی رکھنا دین کی بقاہے، مدارس کے غریب طلبہ کو زکات دینے میں شریعتِ مطہرہ کی ترویج واشاعت میں تعاون ہے، نیز یہ بہترین صدقہ جاریہ بھی ہے۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"(ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير.
(وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة) وقيل الحاج وقيل طلبة العلم، وفسره في البدائع بجميع القرب وثمرة الاختلاف في نحو الأوقاف.
(قوله: أولى منه للفقير) أي أولى من الدفع للفقير الغير المديون لزيادة احتياجه.
(قوله: وهو منقطع الغزاة) أي الذين عجزوا عن اللحوق بجيش الإسلام لفقرهم بهلاك النفقة أو الدابة أو غيرهما فتحل لهم الصدقة وإن كانوا كاسبين إذا الكسب يقعدهم عن الجهاد قهستاني (قوله: وقيل الحاج) أي منقطع الحاج. قال في المغرب: الحاج بمعنى الحجاج كالسامر بمعنى السمار في قوله تعالى {سامرا تهجرون} [المؤمنون: 67] وهذا قول محمد والأول قول أبي يوسف اختاره المصنف تبعا للكنز. قال في النهر: وفي غاية البيان أنه الأظهر وفي الإسبيجابي أنه الصحيح (قوله: وقيل طلبة العلم) كذا في الظهيرية والمرغيناني واستبعده السروجي بأن الآية نزلت وليس هناك قوم يقال لهم طلبة علم قال في الشرنبلالية: واستبعاده بعيد؛ لأن طلب العلم ليس إلا استفادة الأحكام وهل يبلغ طالب رتبة من لازم صحبة النبي - صلى الله عليه وسلم - لتلقي الأحكام عنه كأصحاب الصفة، فالتفسير بطالب العلم وجيه خصوصا وقد قال في البدائع في سبيل الله جميع القرب فيدخل فيه كل من سعى في طاعة الله وسبيل الخيرات إذا كان محتاجا. اهـ"
(کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزکاۃ والعشر،ج2،ص343،ط؛سعید)
وفیہ ایضاً:
"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة.
وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب، ثم الموالي ثم الجيران."
(کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزکاۃ والعشر،ج2،ص346،ط؛سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج."
(کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصارف،ج1،ص190،ط؛دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403102168
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن