ایک سوسائٹی ہے، جو اعلیٰ قسم کی ہاؤسنگ سوسائٹئ ہے، جس میں کروڑوں کی مالیت کے گھر بنے ہوئے ہیں ، وہاں کے رہائشی خاصے مالدار لوگ ہیں، اب وہاں سوسائٹی میں مسجد کی تعمیر ہو رہی ہے، لیکن بجائے اس کے کہ وہ سوسائٹی کے لوگ مسجد میں اپنے اموال سے صدقہ یا مسجد کی تعمیر کی نیت سے پیسے دیں، وہ وہاں کے امامِ مسجد کو زکاۃ کے پیسے دیتے ہیں،اور زکاۃ کے پیسے امام صاحب پھر اس مسجد کی تعمیر میں لگاتے ہیں، ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ شریعت نے زکاۃ کے اولین حقدار مسلمان فقراء و مساکین کو قرار دیا ہے، تاکہ ان کی دادرسی ہو سکے اور اس رقم سے انہیں ذاتی و نجی طور پر فائدہ پہنچایا جا سکے،یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ زکوۃ کی رقم براہ راست مسجد، مدرسہ، اسپتال وغیرہ یا کسی بھی تعمیر میں صرف کرنے یا کسی فلاحی و رفاہی کام میں لگانے سے زکات ادا نہیں ہوتی،کیوں کہ یہ شرعی مقصد و مزاج کے خلاف ہے،اس لیے اس اہم فریضہ کو شرعی مقصد و مزاج کے مطابق ادا کرنے کی ہی کوشش کرنی چاہیے۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں صورتِ مسئولہ میں مالدار لوگوں کے علاقے میں مسجد کی تعمیر میں یوں حیلہ بازی کرنا درست نہیں ہے،بلکہ صاحبِ حیثیت مسلمانوں کو چاہیے کہ مسجد جیسے مقدس اور عظیم مصرف میں دل کھول کر زکوۃ کے علاوہ مال سے خرچ کریں، یہ ان کے لیے سعادت و مزید برکت کا ذریعہ ہو گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره،
(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني وتقدم تمام الكلام على ذلك أول الزكاة.
(قوله: كما مر) أي في أول كتاب الزكاة ط (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي (قوله: ولا إلى كفن ميت) لعدم صحة التمليك منه؛ ألا ترى أنه لو افترسه سبع كان الكفن للمتبرع لا للورثة نهر ."
(كتاب الزكوة، ج:2، ص:344، ط:ايج ايم سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين، ولا يشترى بها عبد يعتق، ولا يدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."
( كتاب الزكوة، الباب السابع في المصارف، ج:1 ، ص:188، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101850
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن