زکاۃ کی رقم گن پوائنٹ پر چوری ہو گئی، اب کیا حکم ہے؟
زکاۃ کی ادائیگی کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زکاۃ کی رقم کسی مستحق زکاۃ تک پہنچا دی جائے، لہذا اگر زکاۃ کی رقم مستحق کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے چوری ہو گئی تو چوری شدہ رقم زکاۃ کی ادائیگی میں کافی شمار نہ ہو گی، خواہ یہ رقم اپنی زکاۃ کی الگ کی ہوئی رقم ہو، یا کسی اور کی امانت ہو جو بطورِ وکیل ادائیگی کے لیے حوالہ کی گئی ہو۔ اگر اپنی ہی زکاۃ کی رقم ہو تو زکاۃ میں واجب رقم دوبارہ ادا کردے، اور اگر یہ رقم کسی کی امانت تھی تو مؤدّی (اصل زکاۃ دینے والے) کو بتادے کہ آپ کی رقم زکاۃ ادا کرنے سے پہلے چوری ہوگئی ہے، آپ دوبارہ سے ادا کردیں، یا اس کے علم میں لاکر اس کی طرف سے اتنی ہی رقم بطورِ زکاۃ ادا کردے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 256):
(هي) لغةً الطهارة والنماء، وشرعًا (تمليك) (جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع) وهو ربع عشر نصاب حولي ... (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه، وهذا معنى قول الكنز تمليك المال: أي المعهود إخراجه شرعا (مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى) بيان لاشتراط النية.
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202267
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن