بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی نیت مستحق کو دینے کے بعد کرنے کا حکم


سوال

1)خالد کو رقم کی ضرورت تھی، زید نے زکوة دینے کا فیصلہ کیا، ایک دن اچانک زید کو کسی نے کہا کہ خالد کو رقم کی ضرورت ہے اسے رقم بھیجو، زید نے قرض کی نیت سے رقم بینک کے ذریعے بھیجی،پھر  زید کو خیال آیاکہ  یہ رقم واپس تو نہیں کرسکتا،اور  میں نے زکوة تو دینی تھی، یہ زکوة کی رقم ہو گئی، زید پورا دن شش و پنج میں رہا کہ زکوة ہے یا قرض ،جب اس نے زکوة کی پکی نیت کی اس وقت تک خالد نے رقم بینک سے نہیں وصول کی تھی، زید نے زکوة کی نیت کرلی، کیا زید کی زکوة ادا ہوگئی یا نہیں؟

2)زید سے عمر نے رقم مانگی، زید نے اپنے بھائی کو رقم بھیجی کہ عمر کو دے دینا، اس نے قرض کی نیت سے بھیجی ،پھر اسے خیال آیا عمر رقم واپس نہیں لوٹا سکتا، اس نے زکوة کی نیت کرلی، بھائی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ عمر کو جس وجہ سے رقم کی ضرورت تھی، وہ کام موخر ہوگیا کچھ وقت کے لیے، زید نے زکوة کی نیت کرلی کہ جب وہ مانگے گا تو یہ زکوة کی رقم ہوگی ۔ پھر عمر نے رقم مانگی تو زید کے بھائی نے دے دی ۔کیا اسطرح زید کی زکوة ادا ہوگئی  یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ زکوۃ کی صحت کے لیے نیت کا ادائیگی  کے ساتھ مقارن  ہونا ضروری ہے ،چاہے مقارن حقیقی ہو یا حکمی،حقیقی مقارنت کی مثال یہ ہے کہ رقم کسی مستحق کو دیتے  وقت  زکوۃ کی نیت کر لے ،اور مقارنت حکمی کی مثال یہ ہے کہ کہ مستحق  کو رقم دینے کے بعد   زکوۃ کی نیت کرنا بشرط یہ کہ رقم مستحق کی ملکیت میں ہو ، الغرض جب تک وہ رقم مستحق کی ملکیت میں ہو گی  اس وقت تک زکوۃ کی نیت درست ہے۔اسی طرح زکوۃ کی واجب شدہ رقم کو زکوۃ کی نیت سے علیحدہ کرنا بھی زکوۃ کی صحت  کے لیے کافی ہےیعنی  اگر زکوۃ کی نیت سے  رقم علیحدہ  کر لی اور  پھر یہ علیحدہ شدہ رقم نیت کے بغیر مستحق کو دے دی توبھی زکوۃ ادا ہو گئی ۔

1،2) صورت مسئولہ میں چوں کہ خالد اور عمر نے زکوۃ وصول ہی نہیں تھی کہ زید نے زکوۃ کی نیت کر لی  تو اس صورت میں مقارنت حکمی پائی جانے کی وجہ سے زید کی زکوۃ ادا ہو گئی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير

وفي الرد :(قوله: والمال قائم في يد الفقير) بخلاف ما إذا نوى بعد هلاكه بحر. وظاهره أن المراد بقيامه في يد الفقير بقاؤه في ملكه لا اليد الحقيقية، وأن النية تجزيه مادام في ملك الفقير، ولو بعد أيام۔۔(أو مقارنة بعزل ما وجب) كله أو بعضه"

(کتاب الزکوۃ ،ج:2،ص:269،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں