بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی ادائیگی کے وقت قیمت فروخت کا اعتبار ہے


سوال

ایک شخص نے نئے سرے سے اپنی دکان"کریانہ جنرل سٹور" کا افتتاح دس رمضان المبارک کو  کیا، شروع میں تقریبًا  65000 کا سامان تھا، اس کے بعد  وقتا فوقتاً اور بھی مالیت سے دکان میں سامان وغیرہ شامل کرتا رہا ،اب  دکان میں موجود سامانِ تجارت  تقریبًا تین /ساڑھے تین لاکھ کی مالیت کا ہوگا، سال پورا ہونے پر زکوۃ کی  ادائیگی کی  کیا صورت ہو گی؟

اگر قرض پر سامان لینے  والے گاہک  ہوں جیسے ماہانہ کھاتہ وغیرہ والے گاہک ہوتے  ہیں، انہوں نے جو ادائیگی کرنی ہے، زکوۃ کی ادائیگی کے وقت اس کو  بھی  شامل کیا جائے گا یا نہیں؟ جب کہ  ان خریداروں میں کچھ حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو ماہانہ ادا نہیں کرتے، بلکہ تاخیر کردیتے ہیں۔

زکوۃ کی ادائیگی کے وقت  موجودہ سامان  کی  قیمتِ فروخت کا حساب لگایا جائے گا یا خرید کا؟

جواب

صورتِ مسئولہ   سائلجس تاریخ  کو پہلی مرتبہ  صاحبِ نصاب  بنا یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی  کی    مالیت  کا مالک ہوا ، اسی تاریخ سے زکاۃ کا سال شروع ہو گیا اورچاند کے حساب سے ایک سال پورا ہونے کے بعدتمام سامان ِ تجارت کی قیمتِ فروخت لگا کر اس کے ساتھ خریداروں  / کھاتہ داروں پر جو رقم قرض ہے، سب کو ملا کر   پورے مجموعہ پر اڑھائی فیصد زکوۃ کی ادائیگی واجب  ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيف ما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصير للتجارة بلا نية صريحا۔"

)كتاب الزكوة:2 /267،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ...  (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد۔"

 )كتاب الزكوة:2 /261،ط:سعید)

و فیہ ایضاً:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، و قالا: يوم الأداء. و في السوائم يوم الأداء إجماعًا وهو الأصح، و يقوم في البلد الذي المال فيه، و لو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح".

(کتاب الزکوۃ، باب زکوۃ الغنم: 2 / 286، ط: سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں