بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوٰۃ کی ادائیگی کے وکیل کا زکوٰۃ کی رقم خود استعمال کرنا یا اپنے شوہر کو دینا


سوال

میری خالہ امریکہ سے اپنی زکاة اور صدقات میری والدہ کو بھیجتی ہیں کہ یہاں کسی ضرورت مند کو دے دیں، تو اب اگر خود مستحق ہونے کی وجہ سے زکات خود استعمال کرنا چاہیں تو کیا کرسکتی ہیں ؟اور میرے والد صاحب بہت مقروض ہیں اور کوئی کاروبار نہیں ہے،  مزدوری کرتے ہیں تو کیا ان کو میری خالہ کی زکات میری والدہ دے سکتی ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں  اگر آپ  کی خالہ نے آپ کی والدہ کو زکوٰۃ کی رقم کسی ضرورت مند مستحق کو دینے کے لیے دی ہو  تو آپ کی والدہ اس رقم کو خود استعمال نہیں کرسکتی، تاہم اپنے مستحقِ زکوٰۃ شوہر کو دے سکتی ہیں، نیز   اگر  خالہ  نے آپ کی والدہ کو اس بات کی اجازت دی ہو کہ اس رقم کو  آپ خود بھی استعمال کرسکتی  ہیں   یا  مکمل اختیار دیاہو کہ ” آپ اسے جہاں چاہیں خرچ کردیں“  تو اس صورت اگر آپ کی والدہ زکوٰۃ کی مستحق  ہوں تو وہ خود بھی استعمال کرسکتی ہیں۔

باقی      زکوٰۃ کا مستحق  وہ شخص ہے جس   کی ملکیت میں   اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب  (ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا   اس کے بقدر سامان ِ تجارت یا  رقم یا  ان سب کو ملا کر مجموعی طور پر ساڑھے  باون تولہ چاندی )کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے) کے برابر بنتی ہے یا  اس کے پاس نصاب کے بقدر رقم یا ضرورت سے زائد سامان تو موجود ہو لیکن اس پر اتنا قرضہ ہو کہ قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے  بقدر رقم نہ بچتی ہو  اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

(قوله: لولده الفقير) وإذا كان ولدا صغيرا فلا بد من كونه فقيرا أيضا لأن الصغير يعد غنيا بغنى أبيه أفاده ط عن أبي السعود وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين؛ إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية. وذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لا يضمن لقولهم: لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره. اهـ.

أقول: وفيه نظر لأن تعيين الزمان والمكان والدرهم والفقير غير معتبر في النذر لأن الداخل تحته ما هو قربة، وهو أصل التصدق دون التعيين فيبطل، وتلزم القربة كما صرحوا به، وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل (قوله وزوجته) أي الفقيرة". 

(2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. .. ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي - صلى الله عليه وسلم - كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي."

(1/ 189، باب المصرف، کتاب الزکاة۔ ط: رشیدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں