نصاب سے زائد مال کی زکات کا کیا حکم ہے؟
جوشخص مسلمان، عاقل و بالغ ،آزاد ہو، نصاب کے برابر مال (نقدی، سونا، چاندی یا مالِ تجارت) رکھتا ہو، ما ل ضروریاتِ اصلیہ سے زائد ہو اور چاند کے اعتبار سے سال مکمل ہونے پر بھی اس کے پاس نصاب یا اس زیادہ مال موجود ہو تو اس پر زکات ادا کرنا فرض ہے۔
صاحبِ نصاب ہونے پر اپنے اموال میں سے چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) زکات میں نکالنا واجب ہے۔
ترمذی وابوداؤد شریف کی روایت میں ہے :
"عن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « قد عفوت عن الخيل والرقيق فهاتوا صدقة الرقة من كل أربعين درهماً درهم، وليس فى تسعين ومائة شىء فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم".
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے گھوڑوں اور لونڈی و غلام کی زکاۃ معاف کر دی (یعنی یہ تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں )پس چاندی کی زکاۃ دو ہر چالیس درہم پر ایک درہم (لیکن خیال رہے )ایک سو نوے درہم میں زکاۃ نہیں ہے، جب دو سو درہم پورے ہوں گے تب زکاۃ واجب ہوگی اور زکاۃ میں پانچ درہم دینے ہوں گے ۔
(سنن الترمذی،باب زکاۃ الذھب والفضۃ،3/16بیروت-سنن ابی داؤد،باب فی زکوۃ السائمۃ2/11)
یہ نصاب سونا چاندی، نقد رقم اور اموال تجارت کے بارے میں ہے ،البتہ جانوروں کا نصاب مختلف ہے جس کی تفصیل احادیث وفقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200256
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن