اگر ایک پاکستانی شخص بنگلہ دیش میں ہو اور وہاں اپنی زکات ادا کرنا چاہے توزکات کی ادائیگی میں پاکستانی کرنسی کی قیمت کا اعتبار ہوگا یا بنگلہ دیشی کرنسی کی قیمت کا ؟
واضح رہے کہ جہاں قابل ِزکات مال موجود ہو، اس مال کی زکات اسی جگہ کی قیمت کے اعتبارسےادا کی جائے گی اور اس معاملے میں زکات دینے والے کی جگہ کااعتبار نہیں ہوگا، لہذا سوال میں ذکر کرده صورت میں مذکورہ شخص جس مال کی زکات ادا کرنا چاہتا ہے،اگر وہ مال پاکستان میں ہے تو پاکستان کی قیمت کے اعتبار سے اور اگر مال بنگلہ دیش میں ہے تو بنگلہ دیش کی قیمت کے اعتبار سے زکات ادا کرےگا۔
حاشیہ طحطاوی میں ہے:
"تنبيه: المعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد وهو الأصح لأن رؤسهم تبع لرأسه در والله سبحانه وتعالى أعلم وأستغفر الله العظيم."
(كتاب الزكاة، باب المصرف، ص:722، ط:دارالكتب العلمية)
مجمع الانھر میں ہے:
"(و) كره (نقلها) أي الزكاة بعد تمام الحول من بلد (إلى بلد آخر) غير البلد الذي فيه المال وإن كان المزكي في بلد، والملك في بلد آخر فالمعتبر مكان الملك لا المالك بخلاف صدقة الفطر حيث يعتبر عنه محمد مكان المؤدي وهو الأصح."
(كتاب الزكاة، باب في بيان أحكام المصرف، ج:1، ص:225، ط:دارالطباعة العامرة)
الموسوعۃ الفقہية میں ہے:
"صرح الحنفية أن عروض التجارة يقومها المالك على أساس سعر البلد الذي فيه المال، وليس الذي فيه المالك، أو غيره ممن له بالمال علاقة."
(زكاة، السعر الذي تقوم به السلع، ج:23، ص:275، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144508100675
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن