بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی ادائیگی کے وکیل نے زکوۃ ادا نہ کی تو کیا حکم ہے؟


سوال

مجھے ایک بندے نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں راشن کی ضرورت ہے تو میں نے 2 دفعہ 30 ہزار کا راشن بھجوایا اس بندے کے ساتھ زکوٰۃ  کی مد میں سے،اور میرا دل اس وقت مطمئن بھی تھا پھر بعد میں پتا  چلا کہ وہ بندہ فراڈ تھا (راشن  کسی پرچوں کی دکان میں بیچ دیتا تھا) تو اس صورتِ  حال میں کیا میری زکوٰۃ قبول ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  زکات کی ادائیگی کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ  زکات کی رقم یا راشن وغیرہ مستحق کے  ہاتھ میں مالکانہ حقوق کے ساتھ  پہنچ  جائے یا مستحق کی طرف سے مقررہ وکیل اس پر قبضہ کرلے، اگر ایسا نہ ہوا  تو  زکات ادا نہ ہو گی، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے  ایک بندے کو  زکات کی مد میں سے راشن  دیا اور اس نے  وہ راشن  مستحقین کو دینے کی بجائے  پرچون کی دکان پر بیچ دیا  تو ایسی صورت میں آپ کی  زکات ادا نہیں ہوئی،  زکات دوبارہ ادا کرنا ہو گی، البتہ  آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ جس بندے نے آپ کے ساتھ دھوکا  کیا ہے  آپ اُس کو ضامن ٹھہرائیں اور اس نے آپ کے  ساتھ  جتنی مالیت کا   دھوکا  کیا ہے  اتنی مالیت کا راشن یا رقم اس سے وصول کریں۔

منحة السلوك في شرح تحفة الملوك (ص: 217):

"و شرعاً: "إعطاء شقص من النصاب الحولي إلى فقير غير هاشمي ولا مولاه، بطريق التمليك، بشرط قطع المنفعة له من كل وجه لله تعالى."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201331

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں