بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم زکوۃ کی صراحت کیے بغیراپنے طالب علم بھائی کو دینے کا حکم


سوال

میرے زیور کی زکوٰۃ میرے شوہر دیتے ہیں اور ہر مہینے ایک مخصوص رقم الگ کر دیتے ہیں، جو سال کے ختم ہونے تک پوری زکوٰۃ بن جاتی ہے ، میں وہ پیسے ہر مہینے مدر سہ میں دیتی تھی، لیکن اب میں نے اس مہینے اپنے بھائی کو دئیے، جو کہ عالم بن رہا ہے ، اب میرا سوال ہے کہ1- بھائی کو بتا نا ہوگا کہ یہ زکوٰۃ کے پیسے ہیں ؟ 2۔اگر وہ ان پیسوں میں سے میرے بچوں کو کچھ دلواتا ہے تو کیا یہ غلط ہوگا؟ اس کو اگر کسی کام کے لئے پیسے چاہیے ہو تو مانگتے ہوئے وہ ذرا جھجکتا ہے کیونکہ دو بڑے بھائی جو کماتے ہیں وہ بھی مالی لحاظ سے نارمل ہیں، اگر میں اس کو بتاؤں تو وہ لینا نہ چھوڑ دے اس لیے نہیں بتاتی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرشوہرسائلہ(بیوی) کے زیورات کی زکوۃ  اس کی اجازت سے ادکرتاہے،توشرعاً اس کی اجازت ہے،اورشوہرکے اداکرنے سے سائلہ (بیوی)کا ذمہ فارغ ہوجائےگا۔

نیزسال پورا ہونے سے پہلےیاسال پوراہونے تک ہرماہ کچھ مخصوص رقم زکوۃ کی نیت سے الگ کرکے پیشگی طورپرسائلہ اپنے بھائی  کو(بشرطیکہ بھائی صاحبِ نصاب نہ ہو اور آپ لوگ سید/ ہاشمی نہ ہوں)  اس رقم کا زکوٰۃ کی مد میں سے ہونے کابتائےبغیرزکوۃ کی نیت سے  مالک بناکرحوالہ کردےتوشرعاً یہ زکوۃ ادا ہوجائےگی،زکوۃ کی رقم ہدیہ کہہ کر بھی دے سکتے ہیں۔  

پھرمذکورہ زکوۃ رقم بھائی کی ملکیت میں آنے کے بعدسائلہ کابھائی اپنی خوشی سے مذکورہ رقم سے اپنے بھانجوں(سائلہ کے بچوں)کو کوئی چیزدلوائے توشرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويجوز تعجيل الزكاة بعد ملك النصاب، ولا يجوز قبله كذا في الخلاصة."

(كتاب الزكوة ج : 1 ص : 176 ط: رشيدية)

 وفیہ ایضاً:

"ومن أعطى ‌مسكينا ‌دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق ناقلا عن المبتغى والقنية."

(كتاب الزكوة ج : 1 ص : 171 ط : رشيدية)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الزكوة واجبة علی الحر العاقل البالغ المسلم إذا بلغ نصابا ملكا تاما و حال عليه الحول."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:217، ط: إدارۃ القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

" لو أمر غيره بالدفع عنه جاز."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:270، ط:سعید)

الدرمع الردمیں ہے:

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز إلا إذا نص على التعويض، ولو دفعها لأخته ولها على زوجها مهر يبلغ نصابا وهو مليء مقر، ولو طلبت لا يمتنع عن الأداء لا تجوز وإلا جاز ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له ‌لو ‌لم ‌يعطه وإلا لا.

(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط وفيه أن المدفوع إلى مهدي الباكورة كذلك فينبغي اعتبار النية، ونظيره ما مر في أول كتاب الزكاة فيما لو دفع إلى من قضي عليه بنفقته من أنه لا يجزيه عن الزكاة إن احتسبه من النفقة وإن احتسبه من الزكاة يجزيه."

(كتاب الزكوة ،فروع في مصرف الزكاة ج : 2 ص : 356 ط : سعيد)

النھرالفائق شرح کنزالدقائق میں ہے:

"وأما الدفع إلى نحو الأخ فتجوز بشرط أن لا تجب نفقته عليه فيحتسبها من النفقة لأن الواجب لا يجزئ عن واجب آخر."

(كتاب الزكوة ج : 1 ص : 412 ط : دارالكتب العلمية)

فتاوی عالگیر ی میں ہے:

'' ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية."

(کتاب الزكوة ج : 1 ص : 171رشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403101486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں