ہمارے گاؤں میں ایک ویلفیئر ہے ،جو لوگوں سے زکوۃو صدقات کی مد میں رقم جمع کرتی ہے اور گاؤں کے غریب مستحق ِزکوۃ لوگوں کے لیے ایمبولینس کی سروس بھی موجود ہے، جس کی سروس ویلفیئر کے صدر کے مطابق فری ہے،اگر کوئی شخص مستحقِ زکوۃ وہ ایمبولینس استعمال کرے، تو بقول ِصدر ویلفیئر کےاس کی ادائیگی زکوۃ کی مد سے ہوتی ہے، کیا اس صورت میں لوگوں کی زکوۃ ادا ہو گی ؟
واضح رہے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ مستحقِ زکوۃ کو مالکانہ قبضہ و تصرف کےساتھ دے دیا جائے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ ادارے والےمستحقِ زکوۃ مریض کو زکوۃ کی رقم کا مالک بناکر یا اس کی طرف سے کوئی وکیل مقرر کرکے اس کے ذریعے ایمبولینس کے کرایہ وغیرہ میں استعمال کرتے ہوں،تو یہ صورت شرعاً درست ہے، اور زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا ہو جائے گی ،لیکن مذکورہ ادارے والے اگر بغیر تملیک اور وکالت کے زکوۃ کی رقم ایمبولینس کے کرایہ وغیرہ میں استعمال کرتے ہوں، تو یہ صورت شرعًا جائز نہیں اور اس صورت میں زکوۃ دینے والوں کی ادا نہیں ہوگی۔
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."
(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها،170/1ط:دارالفکر)
الدر مع الرد ميں ہے:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)."
(کتاب الزکوۃ،باب المصرف،344/2ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307102334
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن