زکات اور صدقۃ الفطر کی رقم تجارت وغیرہ کیلئے دی اور یہ رقم ہلاک ہوگئی کسی بھی طریقے سے مثلاً تاجر لیکر بھاگ گیا وغیرہ، تو کیا اب بھی زکات اور صدقۃالفطر کی مقدار رقم الگ سے دینی ضروری ہے؟
صورت مسئولہ میں اگر زکات اور صدقۃ الفطر کی رقم کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو زکات اور صدقۃ الفطرساقط نہیں ہوتے بلکہ اتنی رقم الگ سے دینی ہو گی۔
نیز مذکورہ رقم تجارت میں کس نے لگائی صاحب نصاب شخص نے یا وکیل نے؟ اور یہ رقم مستحق کو کیوں نہیں دی تجارت میں کیوں لگائی؟ مکمل وضاحت کے ساتھ سوال لکھ کر بھجیں ان شاء اللہ رہ نمائی کی جائے گی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:
"ولايخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء.(قوله: ولايخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لاتسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثاً عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي؛ لأن يده كيد الفقراء، بحر عن المحيط".
(کتاب الزکاۃ، ج: ۲، صفحہ: ۲۷۰، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100206
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن