ایک مدرسہ ہے جس میں محلہ کے بچے دین پڑھتے ہیں، اس مدرسہ کی کوئی آمدنی نہیں، کیا زکاۃ کی رقم سے معلم کو تنخواہ دی جاسکتی ہے تمام طلبہ غریب بچے ہیں؟
زکاۃ کی مد سے تنخواہ دینا جائز نہیں، اور نہ ہی اس طرح تنخواہ دینے سے زکاۃ ادا ہوگی اگرچہ ملازم زکاۃ کا مستحق ہو۔ اہلِ محلہ میں سے اصحابِ حیثیت پر لازم ہے کہ باہمی رضامندی سے چندہ کرکے معلم کی تنخواہ کا بندوبست کریں ۔
فتاویٰ شامی میں ہے :
"ولو دفعها المعلم لخلیفته إن کان بحیث یعمل له لو لم یعطه صح، و إلا لا.
(قوله: وإلا لا )؛ لأن المدفوع یکون بمنزلة العوض". (ردالمحتار علی الدر 2/356)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"فهي تملیك المال من فقیر مسلم ... بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه". (الفتاویٰ الهندیة : 1/170 )
عمدۃ القاری میں ہے :
"وأما الاحتیال لإبطال حق المسلم فإثم وعدوان، وقال النّسفي في الکافي: عن محمد بن الحسن قال: لیس من أخلاق المؤمنین الفرار من أحکام الله بالحیل الموصلة إلی إبطال الحق".(عمدة القاري، کتاب الحیل، دار احیاء التراث العربي ۱۶/۲۳۹، تحت رقم الحدیث:۶۹۵۳) فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144110200565
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن