بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کی پیسوں سے سکول فیس، یوٹیلٹی بل اور گھر کے خرچے کے لیے رقم دینا


سوال

کیا ایسے  شخص کو زکاۃ دے سکتے  ہیں جو صاحبِ  استطاعت تو ہو،لیکن روزمرہ کے خرچے پورے نہیں کر پا تا ہو،کبھی بچوں کے سکول کے فیس کے لیے مانگتا ہو اور کبھی یوٹیلٹی بل یا گھر کی خرچے کے لیے مانگتا ہو؟ایسے شخص کے زکاۃ کے مال سے مدد کرنا کیسا ہے؟یا اگر بچے کے سکول کے فیس دینے کے لیے بچے کو مال کا مالک بنا کر زکاۃ دے دیں۔

جواب

واضح رہےکہ اگر کوئی شخص مستحقِ زکاۃہے، یعنی اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی  ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے، کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے ،اور نہ  ہی  وہ سیّد  ، ہاشمی ہے، تو اس کے لیے زکات لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی،  اگر اس کے  پاس  کچھ زیور اور ضرورت سے زائد  کچھ نقدی ہو یا ضرورت  و استعمال سے زائد  اتنا سامان ہو کہ  ان چیزوں کی قیمت ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہے، تو اس کو زکات دینا جائز نہیں ہے، اگر اس سے کم قیمت بنتی ہے، اس کو زکات دینا جائز ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر وہ شخص مستحقِ زکات ہے ،تو  اسے زکاۃ کی رقم  دی جا سکتی ہے،لیکن وہ شخص  صاحب نصاب ہے،تو پھر اس کے نا بالغ بچے کو بھی زکاۃ نہیں دی جا سکتی،خواہ بچوں کو براہِ راست دی جائے یا والد کو بطورِ وکیل دی جائے،نیزبچے اگر بالغ یا قریب البلوغ اور سمجھ دار ہیں اور ان کے پاس بھی  ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہیں ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے اور وہ سید/ ہاشمی نہیں ہیں تو زکات کی رقم ان بچوں کو مالک بناکر دے دی جائے، اس سے بھی زکات ادا ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي........ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية. ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي".

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:189، ط: رشیدیة)

و فیہ ایضاً:

"ولايجوز دفعها إلى ولد الغني الصغير، كذا في التبيين. ولو كان كبيراً فقيراً جاز، ويدفع إلى امرأة غني إذا كانت فقيرةً، وكذا إلى البنت الكبيرة إذا كان أبوها غنياً؛ لأن قدر النفقة لايغنيها، وبغنى الأب والزوج لاتعد غنية، كذا في الكافي."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:189، ط: رشیدیة)

بدائع   الصنائع میں ہے:

"وأما ركن الزكاة فركن الزكاة هو إخراج جزء من النصاب إلى الله تعالى، وتسليم ذلك إليه يقطع المالك يده عنه بتمليكه من الفقير وتسليمه إليه أو إلى يد من هو نائب عنه، وكذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه."

(کتاب الزکاۃ، فصل: رکن الزکاۃ، ج:2، ص:39، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں