بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کے پیسے سے مدرس کی تنخواہ دینا


سوال

دو تین افراد ایک گاؤں میں دینی مکتب شروع کرنا چاہتے ہیں، اُس گاؤں اور اُس کے اطراف میں کوئی مدرسہ یا مکتب کا نظم نہیں ہے اوربے دینی بہت ہے تو اِس گاؤں کے دو تین افراد مل کر مکتب شروع کر رہے ہیں تو ظاہر ہے اُس میں ایک مُعلم کی ضرورت پیش آئے گی،تواِن حضرات نے ایک معلم رکھا جس کا ہدیہ دس ہزار مقرر ہوا ہے جو یہ دو تین افراد مل کر دیں گے،  اُس میں ایک شخص نے کہا کہ میرے پاس زکوٰۃ کے پیسے ہیں، اگر یہ پیسے مکتب کے معلم کو دینا جائز ہوتو میں پانچ ہزار ہر ماہ دوں گا، تو کیا شرعی طور پر یہ شخص مکتب کے معلم کو زکوٰۃ کے پیسے دے سکتا ہے؟

جواب

زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مسلمان مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے؛ اس لیے مدرسین کو  زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہیں دینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ تنخواہ کام کے عوض میں ہوتی ہے، جب کہ زکاۃ بغیر عوض کے مستحق کو مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’زکوۃ کے پیسہ سے تنخواہ دینا جائز نہیں، جب مستحق کے پاس بطورِ ملک پہنچ جائےگا  تب زکوۃ ادا ہوگی، پھر وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنی طرف سے بطیب خاطر مدرسہ میں دے دے تو تنخواہ میں دینا درست ہوگا‘‘۔

(ج:۱۵،  ص:۵۹۶)

خلاصہ یہ ہے کہ مکتب کے معلم کو زکوۃ کی رقم سے تنخواہ دینا جائز نہیں، اس سے زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں