بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ اور اپارٹمنٹ کی زکات سے متعلق


سوال

مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ درج ذیل اشیاء کی وجہ سے مجھ پر کتنی زکوۃ  واجب ہے؟

۱)کچھ اپارٹمنٹ بک کروائے ہیں جن کی کچھ ادائیگی ہو چکی ہے۔ اپارٹمنٹ تجارت کی نیت سے بک کروائے ہیں۔

۲)ایک پلاٹ فروخت کر کے نفع حاصل ہوا ہے ۔ اس پلاٹ پر زکوۃ باقاعدگی سے ادا کی گئی ہے جب یہ قبضہ میں تھا۔ اب فروخت ہونے کو سال بھی نہیں گزرا ہے ۔

جواب

۱)  واضح رہے کہ بکنگ کی  مد میں جو رقم سائل نے بلڈر کو ادا کی ہے  ، جب تک  مطلوبہ اپارٹمنٹ یا فلیٹ  تعمیر نہیں ہوجاتا یعنی اس کا سٹرکچر وجود میں نہیں آجاتا  اس وقت تک وہ رقم   بلڈر پر ایک قسم کا دین ہے  جس کے بدلہ میں وہ مستقبل میں بکنگ کروانے والے  کو اپارٹمنٹ یا فلیٹ دے گا اورجب  مطلوبہ اپارٹمنٹ یا فلیٹ وجود میں آجاتا ہے   تو بکنگ کروانے  والے  کی ملکیت  اس اپارٹمنٹ پر ثابت ہوجاتی ہے  اور جمع کی ہوئی رقم سے ملکیت ختم ہوجاتی ۔

  لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل نے جو اپارٹمنٹ بک کروایا ہے اگر اس کا سٹرکچر وجود میں آگیا ہے  تو سائل کی  زکوۃ  کا سال مکمل ہونے پر  سائل پر اس  اپارٹمنٹ کی قیمتِ  فروخت  پر  زکوۃ واجب ہوگی یعنی قیمتِ  فروخت کا  ڈھائی فیصد زکوۃ کی مد میں ادا کرنا ہوگا۔اور اگر سٹرکچر ہی موجود نہیں ہے تو  پھر جتنی رقم جمع کروا دی اس رقم پر زکوۃ واجب ہوگی یعنی اس رقم کا ڈھائی فیصد زکوۃ کی مد میں ادا کرنا ہوگا۔

۲) واضح رہے کہ زکوۃ  سال میں ایک مرتبہ واجب ہوتی اور زکوۃ کے  سال کے حساب کتاب میں اس تاریخ کا اعتبار ہوتا ہے جس تاریخ کو کوئی شخص صاحب نصاب بنتا ہے،  مثلًا  کوئی شخص اگر ۵ ربیع الاول کو صاحبِ  نصاب بنا ہے تو  اگلے سال ۵  ربیع الاول کو  اس کی زکوۃ کا سال مکمل ہوا،  اور ۵ ربیع الاول کو جتنا مال ہوگا اس کا حساب کتاب کرکے زکوۃ ادا کی جائے گی،  اور ہر سال اسی طرح کیا جائے گا اور اگر  یہ  یاد نہ ہو کہ کس تاریخ کو صاحب نصاب بنا ہوں تو پھر ایک تاریخ متعین کر لی جائے،  مثلًا پہلی رمضان وغیرہ اور  پھر اس کا اعتبار کیا جائے۔اسی طرح صاحب نصاب بنے کے بعد سال کے دوارن جو مال میں اضافہ ہوگا اس پر الگ سے سال گزارنے  کی ضرورت نہیں ہے،  بلکہ بقیہ مال کے تابع ہوکر سال مکمل ہوتے ہی اس اضافہ پر بھی زکوۃ  واجب ہوجائے گی،  مثلًا  ۵ ربیع الاول کو  دو لاکھ روپے تھے۔ اگلے سال ۱  ربیع الاول تک دو لاکھ ہی رہے ،۲  ربیع الاول کو اضافہ ہوا اور اب یہ دو لاکھ  پچاس ہزار ہوگئے تو  اب ۵  ربیع الاول کو پورے دولاکھ پچاس ہزار پر زکوۃ ادا کی جائے گی اگر چہ پچاس ہزار پر صرف ۴ دن گزرے ہیں۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل نے جب پلاٹ فروخت کیا ہے اور اس کی رقم سائل کے ہاتھ میں آگئی تو اب جب زکوۃ کا سال مکمل ہوگا اس دن جتنی رقم بچی ہوئی ہو اس پر زکوۃ ادا کردے جس دن پلاٹ فروخت کیا اور رقم ہاتھ میں  آئی اس دن زکوۃ  واجب نہیں ہے۔

یعنی  اگر سائل نے اس پلاٹ کی زکوۃ  سابقہ سال مکمل ہونے پر ادا کی تھی اور اب اسے فروخت کرنے کے بعد رمضان میں زکوۃ کا سال مکمل ہوچکا ہے تو اس رقم پر بھی زکوۃ کا حساب کیا جائے گا؛ کیوں کہ کسی مال پر ایک مرتبہ زکوۃ ادا کرنے کے بعد باقی سالوں کی زکوۃ سے آدمی بری الذمہ نہیں ہوتا، مثلًا: کسی کے پاس 5 لاکھ روپے موجود ہوں اور وہ اس کی  زکوۃ ادا کردے، اور آئندہ سال وہی بقیہ رقم بعینہ موجود ہو، تو آئندہ سال بھی اس رقم پر زکوۃ ہوگی۔  

الفتاوى الهندية میں ہے:

«وقوي، وهو ما يجب بدلًا عن سلع التجارة إذا قبض أربعين زكى لما مضى، كذا في الزاهدي.»

(کتاب الزکوۃ باب اول ج نمبر۱ ص نمبر ۱۷۵،دار الفکر)

الفتاوى الهندية میں ہے:

«(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لايسقط الزكاة كذا في الهداية. ولو استبدل مال التجارة أو النقدين بجنسها أو بغير جنسها لا ينقطع حكم الحول، ولو استبدل السائمة بجنسها أو بغير جنسها ينقطع حكم الحول، كذا في محيط السرخسي.

ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك، ولو كان من غير جنسه من كل وجه كالغنم مع الإبل فإنه لا يضم هكذا في الجوهرة النيرة. فإن استفاد بعد حولان الحول فإنه لايضم ويستأنف له حول آخر بالاتفاق هكذا في شرح الطحاوي. ثم إنما يضم المستفاد عندنا إلى أصل المال إذا كان الأصل نصابًا فأما إذا كان أقل فإنه لا يضم إليه، وإن كان يتكامل به النصاب وينعقد الحول عليهما حال وجود النصاب كذا في البدائع.»

(کتاب الزکوۃ باب اول ج نمبر۱ ص نمبر ۱۷۵،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں