بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

زکوة کے مصرف میں تبدیلی کا حکم


سوال

زکات کی رقم جس مد میں لی جائے اس مد میں استعمال کرنا ضروری ہے یا دوسری چیزوں میں استعمال کر سکتے ہیں مثلا ایک بیمار کے آپریشن کے لئے پیسے جمع کیے گئے تو اور چیزوں میں استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر زکات کی رقم متعین مریض کے آپریشن کے لیے دی گئی ہے تو یہ رقم اس مریض کے آپریشن میں استعمال کرنا لازم ہے، اگر آپریشن کے بعد کچھ رقم بچ جائے تو متعین مریض ہی اس کا مالک ہوگا، اس مریض کے علاوہ کسی اور کو یہ رقم دینا یا کسی اور مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و للوكيل أن يدفع لولده الفقير و زوجته لا لنفسه إلا إذا قال ربها: ضعها حيث شئت. (قوله: لولده الفقير) و إذا كان ولدًا صغيرًا فلا بدّ من كونه فقيرًا أيضًا؛ لأنّ الصغير يعد غنيًّا بغنى أبيه أفاده ط عن أبي السعود و هذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين؛ إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية. و ذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لايضمن لقولهم: لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره. اهـ. أقول: و فيه نظر؛ لأن تعيين الزمان و المكان و الدرهم و الفقير غير معتبر في النذر؛ لأن الداخل تحته ما هو قربة، و هو أصل التصدق دون التعيين فيبطل، و تلزم القربة كما صرحوا به، و هنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل و قد أمره بالدفع إلى فلان فلايملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره، فتأمل (قوله: وزوجته) أي الفقيرة."

(کتاب الزکاۃ ، ج : 2، ص : 269، ط : سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الظهيرية: رجل دفع زكاة ماله إلى رجل وأمره بالأداء فأعطى الوكيل ولد نفسه الكبير أو الصغير أو امرأته وهم محاويج جاز، ولا يمسك لنفسه شيئا، ولو أن صاحب المال قال له: ضعه حيث شئت له أن يمسك لنفسه."

(کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ج: 2، ص: 262، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں