بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انویسٹ کی گئی رقم، قرض اور بیلنس کی زکاۃ کا حساب


سوال

میں زکاۃ کے بارے میں جاننا چاہتاہوں، میرے اثاثوں اور مالیات کی تفصیل درج ذیل ہے:

میں ایک نجی اسکول چل رہا ہوں،  لیکن مجھے اس میں منافع نہیں مل رہا، میں اس اسکول میں جیب سے ادائیگی بھی کر رہا ہوں.  میں نے گزشتہ دو سالوں کے لیے ایک اسکول میں پارٹنر کے طور پر  1,200,000 روپے کا اشتراک کیا ہے، لیکن کوئی منافع نہیں ملا،  تاہم میری رقم ان کے ساتھ محفوظ ہے،  منافع 8 ہزار تک ہوگا۔ کریانہ اسٹور چلا رہا ہوں ، کرایہ اور سیلز مین کی تنخواہ ادا کرتا ہوں،  کل مصنوعات 50000 روپے کی ہوسکتی ہیں،  میرے گھر میں ماہانہ اخراجات 60000 کے ارد گرد ہیں، جو میں اپنی بچت سے ادائیگی کر رہا ہوں؛ کیوں کہ پہلے میں متحدہ عرب امارات میں کام کیا کرتا تھا اور اب گزشتہ ایک سال کے لیے بچت کی رقم استعمال کرتا ہوں۔ اب بینک اکاؤنٹ میں 1.2 ملین ہے, میری حج کی درخواست منظور نہیں کی گئی تھی تو یہ میری کل رقم ہے،  چار سال سے دو افراد پر  180000 قرض ہے، میرے پاس کوئی ملازمت ، تنخواہ یا دیگر آمدنی نہیں ہے.

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں مجھے میری زکاۃ کا حساب بتادیجیے!

جواب

بصورتِ مسئولہ آپ کی ملکیت میں جو کچھ سونا، چاندی، مالِ تجارت اور نقدی ہے اگر اس پر سال گزرچکا ہے یا آپ پہلے سے صاحب نصاب ہیں تو جب آپ کی زکوٰۃ کا سال پورا ہوتا ہو اس وقت اپنی ملکیت میں موجود ان تمام چیزوں ( سونا، چاندی،نقدی اور  مال تجارت ) کی قیمت فروخت لگا کر اس میں سے اپنے اوپر واجب الادا  رقم کو نکال لیں اور جو رقم بچ جائے اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں ادا کردیں۔ اگر گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا نہیں کی ہے تو اس کی زکاۃ بھی نکالنا لازم ہوگا۔

لہٰذا آپ کے بینک اکاؤنٹ میں جو رقم ہے اس پر بھی زکات واجب ہوگی، اور جو رقم انویسٹ کی ہے اور جو رقم آپ نے کسی کو قرض دی ہے اس کی زکوٰۃ بھی آپ ہی کے ذمہ لازم ہے۔ البتہ انویسٹ کی گئی رقم کے بارے میں پارٹنر سے معلومات حاصل کرلیں کہ اس سے اسکول کی کیا ضروریات پوری کی گئیں اور اب موجودہ وقت میں آپ کا حصہ اس میں کتنا بن رہاہے، اس کی مالیت کو بینک میں موجود رقم کے ساتھ جمع کردیجیے۔ اور دو افراد پر جو قرض ہے اس کی زکاۃ کی ادائیگی میں آپ کو یہ اختیار ہے کہ قرض وصول ہونے کے بعد زکاۃ دیں یا ابھی دے دیں۔ اگر ابھی دینا چاہتے ہیں تو اس رقم کو بھی مجموعے میں شامل کرلیں، اور پھر مجموعی مالیت کو چالیس سے تقسیم کردیں، حاصل جواب آپ کی زکاۃ کی واجب مقدار ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں