بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 جُمادى الأولى 1446ھ 11 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کے مال سے کسی بیمار رشتہ دار کا علاج کروانا


سوال

زکوۃ کے مال سے کسی بیمار رشتہ دار کا علاج کروایا جاسکتاہے؟

جواب

زکوۃ کا  مستحق وہ مسلمان ہے جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان، گھریلوبرتن، کپڑے وغیرہ) سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، ایسے شخص کو زکوۃ کی رقم کا مالک بنا دینے سے زکوۃ ادا ہو جاتی ہے۔

  لہذا اگر کوئی رشتہ دار واقعی زکوۃ کا مستحق ہو  اور بیماری کے باعث اس کو  علاج کی ضرورت ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ ان کو یہ رقم دے دی جائے اور اس کا مالک بنا دیا جائے پھر وہ اس رقم سے اپنا علاج کرا لیں،  جب تک مستحق کو زکوۃ کی رقم کا مالک نہ بنا دیا جائے اس وقت تک زکوۃ ادا نہیں ہوتی۔

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي''۔

(1/189، باب المصرف، كتاب الزكاة، ط: رشیدیه)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109203090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں