بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کے وجوب کا حکم


سوال

زکوۃ کے وجوب کے اوقات بيا ن کریں۔

جواب

واضح رہے کہ زکوۃ ہر اس شخص پر فرض  ہے جو عاقل،بالغ ،مسلمان اور آزاد ہو ،اور اس کے پاس نصاب کے بقدر مال نامی  ہو ،جو اس کی حوائج اصلیہ اور قرض  سے زائد ہو  ،اور اس پر سال بھی گزرا ہو ،گویا زکوۃ کے وجوب کا وقت صاحب نصاب ہونے کے بعد سال پورا ہونے پر ہے۔

مثلا ایک  عاقل، بالغ ،مسلمان اور آزاد شخص  کے پاس 15 شعبان کو نصاب کے بقدر مال آگیا ،تو یہ شخص صاحب نصاب بن گیا اور اس کا سال شروع ہو گیا ،اگلے سال 15 شعبان کو اگر اس کے پاس نصاب کے بقدر   یا اس سے زائد  مال موجود ہے تواس پرز کوۃ واجب ہو جائے گی  ۔

الغرض اموالِ زکوۃ پر جب سال پورا ہو جائے تو زکوۃ واجب ہو جاتی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(وشرط افتراضها: عقل، وبلوغ،وإسلام، وحرية) والعلم به ولو حكما ككونه في دارنا.(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبه للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب.أقول: إنه خرج باشتراط الحرية، على أن المطلق ينصرف للكامل، ودخل ما ملك بسبب خبيث كمغصوب خلطه إذا كان له غيره منفصل عنه يوفي دينه (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة،وخراج، أو للعبد ولو كفالة أو مؤجلا، ولو صداق زوجته المؤجل للفراق ونفقة لزمته بقضاء أو رضا، بخلاف دين نذر وكفارة وحج لعدم المطالب،ولا يمنع الدين وجوب عشر وخراج وكفارة (و) فارغ (عن حاجته الاصلية) لان المشغول بها كالمعدوم.وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه، أو تقديرا كدينه(نام لو تقديرا) بالقدر على الاستنماء ولو بنائبه"

(رد المحتار ،کتاب الزکوۃ ،ج:2،ص:258،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں