مدرسے کے درجہ حفظ کے نابالغ بچوں کو زکاة کے پیسوں سے کھانا کھلادیا ہے اب آیا زکاة ادا ہوگئی یا نہیں؟
واضح رہے کہ زکات ادا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی مسلمان فقیر (زکاۃ کے مستحق) کو بغیر کسی عوض کے خالص اللہ کی رضا کے لیے مالک بناکر حوالہ کردی جائے،زکوٰۃ کی رقم سےکھانا خرید کر یا پکاکر انہیں بیٹھاکر کھلانے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی؛کیوں کہ زکوٰۃ ادا ہونے کے لیے زکوٰۃ کی رقم یا کھانا وغیرہ کسی مستحق کو مالک بناکر دینا شرط ہے،بٹھا کر کھانا کھلانے سے مالک نہیں ہوتا،بلکہ اس مین اباحت پائی جاتی ہے؛لھذا صورت مسئولہ میں زکاۃ کے پیسوں سے طلباء کو دسترخوان میں بٹھا کر کھانا کھلانے سے زکاۃ ادا نہیں ہوئی۔باقی اگر نابالغ بچہ سمجھ بوجھ رکھتا ہو اور زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) اور اس کے والد مال دار نہ ہوں، بلکہ فقیر (مستحقِ زکات) ہوں تو ایسے بچے کو زکاۃ کی رقم کا مالک بناکر دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی،اسی طرح زکوٰۃ کی رقم سے کھانا پکاکر یا خرید کر انہیں مالک بناکر دے دیا جائے (پیکٹ وغیرہ کی صورت میں یا ان کے پلیٹ میں دے دیا جائے)تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ لیکن اگر بچہ نابالغ ہو اور والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ بھی اٹھاتا ہو تو ایسے بچے کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرعا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم.....
(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه."
(کتاب الزکاۃ،ج2،ص257،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406101494
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن