بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کب واجب ہوگی؟


سوال

 میں ماہانہ چوالیس ہزار تنخواہ لیتا ہوں؛ لیکن ساری تنخواہ گھر کے اخراجات پر خرچ ہوتی ہیں، ایک روپیہ بھی نہیں بچتا اور میری بیوی کے پاس قریب کچھ پچاس ہزار مالیت کا سونا بھی ہے، کیا مجھ پر زکات واجب ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ جس مسلمان عاقل بالغ شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے  باون تولہ چاندی یاساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم ( جو حاجت اصلیہ سے زائد ہو )  یا مالِ تجارت موجود ہو یا ان چاروں چیزوں میں کسی بھی دو یا زائد کامجموعہ  ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو  تو  ایسا شخص صاحبِ  نصاب شمار ہوتا ہے، اور اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں اس پر  زکوٰۃ  واجب ہوتی ہے،  لہذا اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے سات تولے سے کم سونا ہو، مثلًا ایک تولہ سونا ہونا،  اور اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں نہ ہی چاندی ہو اور نہ ہی بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم سے زائد نقدی ہو ، نہ ہی مالِ تجارت ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائل کے پاس جو نقدی رقم ہوتی ہے وہ اخراجات میں خرچ ہوجاتی ہے ،اس سے کچھ بچتا نہیں تو سائل پر  زکوۃ واجب نہیں ہوگی ،سائل کی بیوی کے سونے کی وجہ سے سائل پر زکوۃ واجب نہیں، اسی طرح اگر سائل کی بیوی  کے پاس مذکورہ سونے کے علاوہ اتنی نقدی نہیں کہ  اسے اور سونے کی مالیت کو ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت نہیں بنتی تو سائل کی  بیوی پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہے۔

حديث میں ہے :

"عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ببعض أول الحديث قال: "فإذا كانت لك مئتا درهم، وحال عليها الحول، ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء - يعني في الذهب - حتى يكون لك عشرون دينارا، فإذا كان لك عشرون دينارا، وحال عليها الحول، ففيها نصف دينار، فما زاد، فبحساب ذلك."

(سنن ابی داود،کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ السائمہ،ج:۳،ص:۲۴،دارالرسالۃ العالمیۃ)

در مختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے :

"(و قيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) و عكسه بجامع الثمنية (قيمة)."

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال،ج:۲،ص:۳۰۳،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں