بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کے وکیل کا خود زکات لینے کا حکم


سوال

مجھے ایک آدمی نے زکوٰۃ کا وکیل بنایا اور کہا کہ اگر کوئی مستحق آدمی آپ کو سمجھ آئے اس کو دے دینا،تو اگر میں خود زکوٰۃ کا مستحق ہوں کیا میں اپنے لیے رکھ سکتا ہوں؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  موکل نے سائل کو زکات  کا وکیل بناتے وقت  یہ کہہ کر زکات دی ہے کہ  کوئی مستحق آدمی آپ کو سمجھ آئے تو اس کو دے دینا تو اگر سائل خود زکات کا مستحق ہے تو زکات سائل  اپنے لیے رکھ سکتا ہے ۔

 البحر الرائق  میں ہے :

"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اهـ.إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية".

(کتاب الزکات،شروط اداء الزکات،ج:2،ص:227،دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں