میرے پاس چھ تولہ سونا ہے اور 10 ہزار روپے میرے پاس پچھلے شعبان سے پڑے ہیں ، میں شعبان میں زکوۃ دیتا ہوں ،ابھی اس شعبان کے مہینے میں میرے پاس تین لاکھ روپے مزید آنے ہیں تو اس پر میں زکوۃ کس طرح ادا کروں گا؟
صورتِ مسئولہ میں جب آپ پہلے سے صاحب ِ نصاب ہونے کی وجہ سے شعبان میں زکوۃ ادا کرتے ہیں اور آپ کے پاس چھ تولہ سونا اور دس ہزار روپے نقد موجود ہیں اور اب اس شعبان میں مزید تین لاکھ روپےآنے ہیں تو اگر آپ شعبان کی کسی مقرر تاریخ کو زکوۃ نکالتے ہیں اور مذکورہ تین لاکھ روپے اس تاریخ سے پہلے آپ کی ملکیت میں آجاتے ہیں تو اس صورت میں زکوۃ کاسال پورا ہونے پر دیگر مال اور اس تین لاکھ سب کو ملا کر اس کے مجموعہ کے ڈھائی فیصد کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی اور اگر یہ رقم مقررہ تاریخ سے پہلے ملکیت میں نہ ہو ،بلکہ اس کے بعد یہ رقم ملکیت میں آئے تو اس صورت میں اس سال کی زکوۃ میں یہ تین لاکھ شامل نہیں کیے جائیں گے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك، ولو كان من غير جنسه من كل وجه كالغنم مع الإبل فإنه لا يضم هكذا في الجوهرة النيرة. فإن استفاد بعد حولان الحول فإنه لا يضم ويستأنف له حول آخر بالاتفاق هكذا في شرح الطحاوي. ثم إنما يضم المستفاد عندنا إلى أصل المال إذا كان الأصل نصابا فأما إذا كان أقل فإنه لا يضم إليه، وإن كان يتكامل به النصاب وينعقد الحول عليهما حال وجود النصاب كذا في البدائع."
(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها و شرائطها،175/1،ط:رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408100900
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن