ایک خاتون نے پہلے شوہر سے طلاق لے کر دوسری شادی کی ہوئی ہے، پہلے شوہر سے اس کے تین بچے ہیں، جو کہ اس کے پاس رہتے ہیں، خاتون کا پہلا شوہر ان بچوں کا خرچہ نہیں بھیجتا، خاتون کا موجودہ شوہر سعودیہ میں رہتا ہے، وہ اس خاتون کا خرچہ تو بھیجتا ہے، لیکن اس کے پہلے شوہر کے بچوں کا خرچہ نہیں بھیجتا، الغرض اس کا بھیجےہوئے خرچ سے بچوں کو پالنا اور گھر چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کیا ایسی خاتون کو یا اس کے بچوں کو زکوة دی جا سکتی ہے؟ راہ نمائی فرما دیں۔
بصورتِ مسئولہ اگر مذکورہ خاتون مستحقِّ زکوۃ ہے یعنی مسلمان ہے، غیرسید ہے، غریب ہےیعنی صاحبِ نصاب نہیں ہے(یعنی مذکورہ خاتون کے پاس چاندی، کیش، یا مالِ تجارت میں سے اتنا مال نہیں ہے کہ جس کی مالیت ساڑھے باؤن تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر ہوجائے) تو مذکورہ خاتون کو زکوۃ دینا جائز ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
"أما تفسیرھا فھي تملیک المال من فقیر مسلم غیرھاشمی و لا مولاہ بشرط قطع المنفعة عن المملک من کل وجه لله تعالی ھذا في الشرع،"
(کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسیر الزكاۃ، ج:،1 ص:170، ط:مکتبه حقانیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209200696
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن