زکوة کے پیسوں سے کمبل خرید کر مستحقین تک پہنچا دیئے، لیکن کچھ رہ گئے کیا ہم وہ کمبل گھر میں رکھ کر اس کے عوض گھر کا کمبل دے سکتے ہیں؟
صورت مسئولہ میں اگر کسی اور شخص کی جانب سے زکوة کی رقم فراہم کی گئی تھی کہ اس سے کمبل خرید کر مستحقین میں تقسیم کیے جائیں، تو اس صورت میں مذکورہ کمبل مستحقین کو دینا ضروری ہوگا، زکوة کے کمبل کو اپنے نئے یا پرانے کمبل سے تبدیل کرنا جائز نہ ہوگا، اور نہ ہی اس طرح کرنے سے زکوة ادا ہوگی، البتہ اگر اپنی رقم سے زکوة کی نیت سے کمبل خریدے ہوں، اور مستحقین کو مالک بنانے سے پہلے نیا کمبل اپنے پاس رکھ کر استعمال شدہ کمبل زکوة کی نیت سے دینا جائز ہوگا، تاہم اس صورت میں پرانے کمبل کی موجودہ قیمت فروخت زکوة کے حساب سے منہا کی جائے گی۔
المحیط البرهاني في الفقه النعماني لابن مازہ میں ہے:
"وذكر محمد رحمه الله في «الرقيات» أنه يقوم في البلد الذي حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقداً فيما بينهم، يعني غالب نقد ذلك البلد، ولا ننظر إلى موضع الشراء، ولا إلى موضع المالك وقت حولان الحول؛ لأن هذا مال وجب تقويمه، فيقوّم بغالب نقد البلد كما في ضمان المتلفات إلا أنه يعتبر نقد البلد الذي حال الحول فيه على المال؛ لأن الزكاة تصرف إلى فقراء البلدة التي فيها المال، فالتقويم بنقد ذلك البلد أنفع في حق الفقراء من حيث الرواج، فيجب اعتباره."
( كتاب الزكوة، الفصل الثالث في بيان مال الزكاة، ٢ / ٢٤٦، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100275
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن