بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کا مال مہر میں ادا کرنا


سوال

زکوۃ کے مال سے مہر ادا کرنا؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر سوال کا مقصد  یہ ہے کہ زکات کی جو رقم علیحدہ کر کے رکھی ہو اس کو مہر کی ادائیگی میں خرچ کرنے کا کیا حکم ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ جو رقم زکات کی ادائیگی کے لیے علیحدہ کر رکھی ہو وہ  زکات ادا کرنے کے لیے  متعین نہیں ہوتی، لہذا اسے کسی اور ضرورت میں استعمال کر سکتے ہیں ، لہٰذا مہر ادا کرنے  کے لیے بھی اس رقم کو استعمال کیا جا سکتا ہے، البتہ جتنی  زکات ذمے  میں باقی رہ گئی ، وہ بہرحال ادا کرنا لازم رہے گی۔

اور اگر مقصد یہ ہے کہ کسی کی بیوی زکات کی مستحق ہے اور اس کا شوہر  زکات  کی رقم مہر کے طور پر  دے تو یہ  درست نہیں ،مہر کے طور پر رقم دی تو مہر ادا ہوجائے گا، لیکن زکات ادا نہیں ہوگی۔

اور  اگر شوہر غریب ہے زکات کا مستحق ہے اور وہ کسی سے زکات کی رقم لے کر بیوی کا مہر ادا کردے تو جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و لايخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ،2 / 270،كتاب الزكاة، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100657

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں