بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کا حکم


سوال

میں نے بینک اسلامی میں 10لاکھ روپے جمع کرلیے ہیں، جس کے عوض مجھے ماہانہ 12ہزار روپے نفع ملتاہے۔

کیا میرے اوپر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے؟ اگر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہو تو پھر میں 10لاکھ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کروں گا؟ یا 12 ہزار کے حساب سے؟

جواب

واضح رہے کہ مروجہ اسلامی بینکوں کا طریقہ کاراور نظام  مكمل شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات  تقریباً  ایک جیسے ہیں صرف نام کا فرق ہے ، لہذاكسي  بھی بینک کے ساتھ کسی بھی قسم کا تمویلی معاملہ کرنا اور اس کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم جمع کرنا اور  اس سے منافع لینا شرعا ناجائزہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل پر 10لاکھ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے،  اس کے علاوہ اسلامی بینک کی طرف سے اب تک جتنا نفع  سائل کو ملا ہے وہ نفع اگر سائل کے پاس موجود ہے تو اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردے اور اگر استعمال کرلیا ہے تو اتنی حلال رقم بلا نیت ثواب غرباء اور فقراء میں تقسیم کردیں نیز اپنا اکاؤنٹ سیونگ اکاؤنٹ سے تبدیل کرکے کرنٹ اکاؤنٹ میں منتقل کروادیں۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم۔۔۔ينهى تبارك وتعالى عباده المؤمنين عن أن يأكلوا أموال بعضهم بعضا بالباطل، أي بأنواع المكاسب التي هي غير شرعية كأنواع الربا والقمار، وما جرى مجرى ذلك من سائر صنوف الحيل."

(سورة النساء، الآية:29، ج:2، ص:234، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « أيها الناس إن الله طيب لايقبل إلا طيباً، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال: ( يٰاَيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صٰلحاً إنى بما تعملون عليم) وقال: (يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم) ». ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء: يا رب يا رب! ومطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذى بالحرام؛ فأنى يستجاب لذلك."

(كتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها، ج:3، ص:85، ط:دارالطباعة العامرة تركيا)

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو) في (عرض تجارة قيمته نصاب)."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج:2، ص:298، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوّم بالمضروبة، كذا في التبيين. وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."

(كتاب الزكاة، ج:1، ص:179، ط:رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں