بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کا حکم


سوال

میری بیوی کے پاس سات تولے  سونا ہے ،اس پر زکوۃ دینا لازمی ہے یا نہیں ؟ بتاریخ 23 مارچ 2022 کو جب ہم سونا تولنے زرگر کے پاس گئے، تو انہوں نے بتایا کہ اب  چوں کہ سونا مہنگا ہے؛ اس لیے ایک تولے پر بھی زکوۃ ادا کرنی ہوگی، پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہم زکوۃ دیں یا نہ دیں؟ زرگر کے کہنے کے مطابق سونا مہنگا ہونے کی وجہ سے زکوۃ ہر اس شخص پر لازم ہے جس کے پاس ایک تولہ سونا ہے۔ راہنمائی فرمائیں۔ مارکیٹ میں ایک تولہ  سونا ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ جس مسلمان عاقل بالغ شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے  باون تولہ چاندی یاساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم ( جو حاجت اصلیہ سے زائد ہو )  یا مالِ تجارت موجود ہو یا ان چاروں چیزوں میں کسی بھی دو یا زائد کامجموعہ  ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو اور  وہ شخص مقروض بھی  نہ ہوتو ایسا شخص صاحبِ  نصاب شمار ہوتا ہے، اور اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں اس پر  زکوٰۃ  واجب ہوتی ہے۔

پس اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے سات تولے سے کم سونا ہو، مثلًا ایک تولہ سونا ہونا،  اور اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں نہ ہی چاندی ہو اور نہ ہی بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم سے زائد نقدی ہو ، نہ ہی مالِ تجارت ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔

البتہ اگر سونے کے نصاب سے کم سونے کے ساتھ کچھ چاندی یا بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم کے علاوہ کچھ نقدی یا مالِ تجارت بھی ہو تو اس صورت میں سونے کی قیمت کو چاندی کی قیمت یا نقدی یا مالِ تجارت کے ساتھ ملایا جائے گا، اور اگر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جائے تو اس صورت میں کل مجموعہ مالیت کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد بطورِ   زکوٰۃ  ادا کرنا واجب ہو گا۔

حديث میں ہے :

"عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ببعض أول الحديث قال: "فإذا كانت لك مئتا درهم، وحال عليها الحول، ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء - يعني في الذهب - حتى يكون لك عشرون دينارا، فإذا كان لك عشرون دينارا، وحال عليها الحول، ففيها نصف دينار، فما زاد، فبحساب ذلك."

(سنن ابی داود،کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ السائمہ،ج:۳،ص:۲۴،دارالرسالۃ العالمیۃ)

در مختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے :

"(و قيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) و عكسه بجامع الثمنية (قيمة)."

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال،ج:۲،ص:۳۰۳،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں