بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار دے کر زکات میں سے اس کا حساب کرنا


سوال

میں نے ایک شخص کو کاروبار میں لگانے کے لئے 10 لاکھ دیے کسی اور سے لے کر ديے جس کا اس نے مجھے اور 10 لاکھ دینے والے کو پرافٹ بھی دیا کچھ ماہ تک لیکن کچھ ماہ بعد پروفٹ دینا بند کردیا اور ادھار دی گئی رقم کا حساب بھی نہیں دیا کہ اس سے نقصان ہوگیا یا وہ رقم اس نے خود استعمال کرلی اور وہ شخص زکات کا بھی حق دار ہے، تو کیا اس کو بغیر بتائے 10 لاکھ زکات کے حساب میں ادا کرسکتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں  اگر پیسےادھار دیے تھے تواس پر کسی قسم کا نفع لیناجائز نہیں تھا،اس پر جو نفع لیا ہے وہ دس لاکھ میں سے منہا ہوگا۔اگرپیسے کاروبار میں لگانے  کے لیے تھے اور فیصد کے حساب سے نفع میں حصہ مقررنہیں کیا تھا بلکہ نفع کی مقدار طے کی تھی یا اس طرح طے کیا تھا کہ کل رقم کا اتنا فیصد وہ نفع دے گا تو بھی کاروبار کی یہ صورت ناجائز تھی ۔

اب اگر وہ رقم ضائع ہوگئی ہے  اوراس شخص کی غفلت سے ضائع ہوئی ہے یا اس نے دبالی ہے یا خود استعمال کرلی ہے تو اس پر اتنی رقم واجب الاداء ہے مگر اس رقم کو اگر زکات کی مد میں معاف کریں گے تو زکات ادا نہ ہوگی البتہ دو جائز صورتیں اس کی ہوسکتی ہیں جس میں زکات ادا ہوجائے گی:

1.اگر مقروض واقعتًا   مستحق  ہے تو اسے زکات  کی رقم کا مالک بنائیں اور  جب رقم اس کی ملکیت میں چلی جائے، تو اس سے اپنے قرضہ وصول کر لیں، اس طرح دینے والے کی زکات بھی ادا ہوجائے گی، اور مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔

2. زیادہ بہتر صورت یہ ہوگی کہ مقروض، قرض کے برابر رقم کسی تیسرے شخص سے ادھار لے کر  قرض خواہ کو اپنا قرض ادا کرے، قرض خواہ قرض وصول کرنے کے بعد وہی رقم اپنی زکات کی مد میں سابقہ مقروض کو ادا کردے، پھر یہ مقروض اس تیسرے شخص کو اس کی رقم لوٹا دے جس سے اس نے عارضی طور پر ادھار لیا تھا۔ اس طرح اولاً  قرض خواہ کا قرض وصول ہوجائے گا، اور زکات بھی ادا ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"واعلم أن أداء الدين عن الدين والعين عن العين، وعن الدين يجوز وأداء الدين عن العين، وعن دين سيقبض لايجوز. وحيلة الجواز: أن يعطي مديونه الفقير زكاته ثم يأخذها عن دينه.

(قوله: وحيلة الجواز) أي فيما إذا كان له دين على معسر، وأراد أن يجعله زكاة عن عين عنده أو عن دين له على آخر سيقبض (قوله: أن يعطي مديونه إلخ) قال في الأشباه وهو أفضل من غيره أي لأنه يصير وسيلة إلى براءة ذمة المديون." 

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:270، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144311102082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں