کیا زکات کے پیسے مسجد و مدرسہ میں دینا جائز ہے ؟ چھوٹے مدارس و مساجد میں اگر زکات کے پیسے استعمال کرنے ہوں تو کیا حیلہ ہے ؟ بعض تنظیمیں زکات وللہ رقم چندہ کرتی ہیں، اور پھر وہ پیسے بینک میں ڈپازٹ رکھ کر سود حاصل کرتی ہیں، اور اس کو غریبوں کا علاج و معالجے، ان کے کپڑے ،کتا بیں ،فیس و غیرہ میں خرچ کرتی ہیں تو کیا یہ جائز ہے ؟
دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ان کو مالی امداد کے ذریعے مضبوط کرکے باقی رکھنا دین کی بقاہے، مدارس کے مستحق طلبہ کو زکات دینے میں شریعتِ مطہرہ کی ترویج واشاعت میں تعاون ہے ، لہذا مدارس کے مستحقِ زکات طلبہ کو زکات دینا نہ صرف جائز، بلکہ مستحسن اور دوہرے اجر کا باعث ہے۔ باقی مدارس کے نمائندے مدرسے کے طلبہ کے وکیل ہوتےہیں، اور زکات کی رقم مستحق طلبہ تک پہنچانے میں امین بھی ہوتے ہیں، ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ زکات کو مستحقِ زکات طلبہ کو مالک بنا کردیں، ا ن کو مالک بناکر دینے سے زکات دینے والوں کی زکات ادا ہوجاتی ہے۔
جہاں تک مساجد میں زکات کی رقم دینے کا تعلق ہے تو اس کے لیے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مسلمان مستحقِ زکات شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے؛ اس لیے مساجد کی تعمیر وغیرہ پر زکات کی رقم نہیں لگائی جاسکتی؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔ اور مسجد کے عملہ کی تنخواہوں میں بھی زکات کی رقم استعمال نہیں کی جاسکتی، اس لیے کہ تنخواہ کام کے عوض میں ہوتی ہے کہ جب کہ زکات بغیر عوض کے مستحق کو مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے۔
البتہ نفلی صدقات اور عطیات مسجد میں دیے جاسکتے ہیں۔
پھر مسجد کےاخراجات کے لیے حیلہ تملیک کرنا درست نہیں ہے، اہلیانِ محلہ کو چاہیے کہ زکاۃ اور واجب صدقات کے علاوہ اپنے خالص حلال مال سے مسجد کی خدمت کرنے کو اپنی سعادت سمجھیں۔ اگر مسجد پس ماندہ اور غریب علاقے میں ہے اور اہلیانِ مسجد میں مسجد کے اخراجات کو عطیات کی مد سے پورا کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو اس علاقے سے باہر کے دیگر اہلِ خیر حضرات کو اس طرف متوجہ کیا جائے، اورحیلہ تملیک سے بچنے کی آخری حد تک سنجیدہ کوشش کی جائے۔
اس کے بعد بھی اگر مذکورہ کوئی صورت ممکن نہ ہو اور کوئی اس کی ذمہ داری نہیں لیتا، تو اس صورت میں بوجہ مجبوری، شرائط کے ساتھ حیلہ کی گنجا ئش ہو گی، یعنی فقیر کو زکاۃ کی رقم دیتے وقت مسجد کی ضروریات تو بتادی جائیں، لیکن اسے زکاۃ کی رقم مالک بنا کر دی جائے اور دینے والا اور لینے والا یہ سمجھتاہو کہ فقیر مالک ومختار ہے، چاہے تو اسے مسجد کے اخراجات میں صرف کرے اور چاہے تو خود استعمال کرے، اور پھر وہ فقیر دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے مسجد کے مصارف میں دے دے تو اس کی گنجائش ہوگی۔
اگر کوئی تنظیم لوگوں سے زکات اور چندہ کی رقم وصول کر کے اُس کو بینک میں ڈپازٹ کروا کے اس سے سود وصول کرتی ہے تو اس کے ذمے دار سخت گناہ گار ہوں گے، ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے؛ کیوں کہ سود کی رقم لینا ہی ایک بڑے گناہ کا کام ہے، ان کو اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نیز تنظیم یا مدرسے کے ذمہ داران زکات وصدقات وغیرہ کو مصرف میں خرچ کرنے کے پابند ہیں، ان کے لیے زکات وغیرہ کی رقم کو کسی جائز کاروبار میں لگانا بھی امانت کے خلاف اور ناجائز ہے۔
"فتاوی عالمگیری" میں ہے:
" لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".
(1/ 188، کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200589
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن