بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کے معاملہ میں وکیل بنانا کیسا ہے؟


سوال

زکات کے معاملہ میں وکیل بنانا کیسا ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو زکات کی ادائیگی کے لیے وکیل بناتا ہے تو ایسا کرنا درست ہے اور مؤکل کی طرف سے جو رقم وکیل کو دی جائے گی، اس رقم کو  وکیل کا کسی کو بطورِ زکات دینا درست ہے، ایسا کرنے سے زکات ادا ہو جائے گی۔

پھر وکیل کے لیے زکاۃ کا مال  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اس کے ہاتھ میں یہ مال امانت رہے گا   جسے موکل کی ہدایت کے مطابق صَرف کرنا لازم ہوگا، تاہم اگر موکل نے وکیل کو  مکمل اختیار دے دیا ہو اور یوں  کہہ دیا ہو کہ "جو چاہے کرو، جسے چاہے دو" اس صورت میں اگر وکیل زکات کا مستحق ہو تو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔

اگر  وکیل کے پاس سے موکل کی زکات کی رقم ضائع ہوگئی تو موکل کی زکات ادا نہیں ہوئی، اگر وکیل نے حفاظت میں غفلت و کوتاہی نہیں کی تو وکیل اس رقم کا ضامن نہیں ہوگا، اور اگر وکیل نے حفاظت میں غفلت کی تو وکیل اس رقم کا ضامن ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (2 / 227):

"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرًا  كان أو صغيرًا، و إلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولايجوز أن يمسك لنفسه شيئًا اهـ. إلا إذا قال: ضعها حيث شئت، فله أن يمسكها لنفسه، كذا في الولوالجية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں