بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کے باب میں بنو ہاشم سے مراد


سوال

کیا  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی غیر فاطمی اولاد اعوان علوی نسل اور  ہاشمی خاندان کو زکات  دی جا سکتی ہے؟  قرآن وسنت کی روشنی میں راہ نمائی کیجیے۔

جواب

بنو ہاشم کو زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے، اوربنو ہاشم سے مراد حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حضرت حارث رضی اللہ عنہم کی اولاد ہے، ان میں سے کسی کی بھی اولاد کو زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ بنو ہاشم کے بقیہ خاندان کی اولاد کو زکوۃ دینا جائز ہے ،مثلاً ابو لہب کی اولاد وغیرہ۔

آلِ علی میں چوں کہ کوئی تخصیص نہیں ہے؛ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کو زکوۃ کی رقم دینا مطلقاً جائز نہیں ہو گا۔

لہذا  اگر اعوان برادری کا سلسلہٴ نسب بہ واسطہ محمد بن الحنفیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، اور اعوان برادری کے پاس اس سلسلہ میں مستند شجرہٴ نسب بھی موجود ہے تو یہ برادری سادات سے شمار ہوگی اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کو زکوة دینا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی کسی دوسری برادری کا انھیں زکوة دینا جائز ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):

"ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200185

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں