شادی شدہ بیٹی اپنی بیوہ والدہ کو زکات دے سکتی ہے؟ والدہ کا کوئی اور کفیل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ زکات، فطرانہ اور عشر اپنے اصول ( والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ اوپر تک) اور فروع ( بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ نیچے تک) کو نہیں دے سکتے ہیں؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں بیٹی کا اپنی والدہ کو زکات دینا جائز نہیں ہے، اگر دی تو زکات ادا نہ ہو گی۔ البتہ عطیات اور نفلی صدقات وغیرہ سے تعاون کر سکتی ہے۔اگر والدہ تنگدست ہو، غریب ہو، اس کا اپنا ذاتی مال کوئی نہ ہو اور بیٹی کے علاوہ کوئی اولاد اور رشتہ دار نہ ہوں تو والدہ کا ناں ونفقہ شرعاً صرف اسی بیٹی پر لازم ہے، بشرطیکہ اس والدہ کا کوئی اور ایسا قریبی رشتہ دار نہ ہو جو اس کا وارث بن سکے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم ؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم ولهذا تقبل شهادة البعض على البعض والله أعلم."
(کتاب الزکاۃ، وأما شرائط الركن فأنواع بعضها يرجع إلى المؤدي وبعضها يرجع إلى المؤدى، ج: ۲، ص: 50، ط: دار الكتب العلمية)
البناية شرح الهداية میں ہے:
"فصل وعلى الرجل أن ينفق على أبويه وأجداده وجداته، إذا كانوا فقراء وإن خالفوه في دينه. أما الأبوان فلقوله تعالى: {وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا} [لقمان: 15]، فأنزلت في الأبوين الكافرين.م: (فصل) ش: أي هذا فصل، ولما فرغ من بيان نفقة الأولاد شرع في بيان نفقة الآباء والأجداد والخادم. م: (وعلى الرجل أن ينفق على أبويه وأجداده وجداته إذا كانوا فقراء) ش: وفي " المبسوط ": على الرجل الموسر نفقة أبيه وأمه، وأب الأب وإن علا، وأم الأب وإن علت، وأم الأم وإن علت. وشرط الشافعي في ذلك أن يكون الأب زمنًا ولم يوافقه أحد. وفي " التنبيه ": ويجب على الأولاد ذكورهم وإناثهم نفقة الوالدين، وإن علوا بشرط الفقر والزمانة، والجنون مع الصحة قولان، أظهرهما: لا يجب."
(کتاب النفقة، فصل نفقة الآباء والأجداد والخادم، ج:5، ص:699، ط: دارالکتب العربیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101000
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن