ہماری کمیونٹی اپنے ممبران کے لیے مختلف فلاحی کام سر انجام دیتی ہے، جس میں تعلیمی فیس، علاج معالجہ اور بیواؤں کی امداد سمیت مختلف مدوں میں تعاون شامل ہے ، اس سلسلہ میں ہمارے پاس سال بھر زکوۃ جمع ہوتی ہے بالخصوص رمضان میں اس کا تناسب زیادہ ہے تو معلوم کرنا ہے کہ:
۱) کیا جمع شدہ تمام زکوۃ کو ایک مقرر شدہ تاریخ یا رمضان سے پہلے خرچ کرنا ضروری ہے؟ کیونکہ ہم ایک پالیسی کے تحت زکوۃ خرچ کرتے ہیں۔
۲) رمضان مقرر تاریخ کے بعد نئی زکوۃ بھی جمع ہوتی ہے، کیا پرانی جمع شدہ زکوۃ کو اس میں شامل کرسکتے ہیں یا اس کا حساب الگ رکھنا ضروری ہے؟
۳) کیا زکوۃ کا حساب شمسی لحاظ سے رکھ سکتے ہیں جیسے مال سال (فائنینشل سال جو یکم جولائی سے اگلے سال ۳۰ جون تک)۔
برائے مہربانی جوابات دے کر رہنمائی فرمائیں۔
۱)واضح رہے کہ مذکورہ کمیونٹی جو زکوۃ کی رقم لوگوں سے مستحقین کی مدد میں خرچ کرنے کے لیے جمع کرتی ہے یہ رقم زکوۃ دینے والوں کی جانب سے کمیونٹی کے پاس امانت ہوتی ہے اور کمیونٹی کی انتظامیہ زکوۃ دینے والوں کی وکیل ہوتی ہے، لہذا زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ جب تک مستحقین زکوۃ میں تقسیم نہ کردی جائے، اس وقت تک واجب الاداء رہتی ہے۔
لہذا مذکورہ کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد وصول کردہ زکوۃ کو مستحقین تک پہنچانے کا انتظام کرے ۔اور جہاں محسوس ہو کے رقم بہت زیادہ جمع ہوگئی اور یہ رقم فورا خرچ نہیں کی جاسکے گی تو پھر کچھ وقت کے لیے رقم جمع کرنے میں توقف کرلے اور جب فنڈ خالی ہوجائے تو پھر دوبارہ جمع کرلے۔نیز اگر رقم جمع ہونے کے بعد کسی عذر کے باعث فورا خرچ نہ ہوسکے تو مستحق میسر آنے تک محفوظ رکھنے کی گنجائش ہوگی۔
نیز یہ واضح رہے کہ اس معاملہ میں کسی کسی خاص مہینے (مثلارمضان) سے پہلے پہلے رقم خرچ کرنے کا اصول اس نیت سے بنانا کہ اگلی زکوۃ کے وجوب سے پہلے پہلے زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا ہوجائے تو اس کے متعلق یہ بات چاننی چاہیے کہ یہ اصول موثر نہیں ہوگا کیونکہ ہر زکوۃ دینے والے شخص کے حق میں اس شخص کے زکوۃ کے سال کاا عتبار ہے، وہ رمضان بھی ہوسکتا ہے اور رمضان کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے۔ لہذا کمیونٹی کے لیے اصول یہ ہی ہونا چاہیے کہ وہ حتی المقدور کوشش کر کے جمع شدہ رقم کو جلد از جلد خرچ کردے۔
۲،۳) شق نمبر ۱ میں گزر گیا کہ سال کی تعیین کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لہذا الگ حساب رکھنے کی کوئی حاجت نہیں ہے اور نہ اس میں شمسی اور قمری سال کے اعتبار کی کوئی حاجت ہے،ا صل اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ جلد از جلد رقم صرف ہوجائے۔
معارف القرآن میں ہے:
" تفصیل مذکور سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آج کل جو اسلامی مدارس اور انجمنوں کے مہتمم یا ان کی طرف سے بھیجے ہو ئے سفیر صدقات زکوۃ وغیرہ مدارس اور انجمنوں کے لئے وصول کرتے ہیں، ان کا وہ حکم نہیں جو عاملین صدقہ کا اس آیت میں مذکور ہے، کہ زکوۃ کی رقم میں سے ان کی تنخواہ دی جاسکے، بلکہ ان کو مدارس اور انجمن کی طرف سے جدا گانہ تنخواہ دینا ضروری ہے، زکواۃ کی رقم سے ان کی تنخواہ نہیں دی جا سکتی ، وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ فقراء کے وکیل نہیں بلکہ اصحاب زکوۃ مال داروں کے وکیل ہیں، ان کی طرف سے مال زکواۃ کو مصرف پر لگانے کا انکو اختیار دیا گیا ہے ، اسی لئے ان کے قبضہ ہو جانے کے بعد بھی زکوۃ اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک یہ حضرات اس کو مصرف پر خرچ نہ کر دیں ۔
فقراء کا وکیل نہ ہونا اس لئے ظاہر ہے کہ حقیقی طور پر کسی فقیر نے ان کو اپنا وکیل بنایا نہیں، اور امیر المومنین کی ولایت عامہ کی بنا پر جو خود بخود وکالت فقراءحاصل ہوتی ہے وہ بھی ان کو حاصل نہیں، اس لئے بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ ان کو اصحاب زکوۃ کا وکیل قرار دیا جائے اور جب تک یہ اس مال کو مصرف پر خرچ نہ کر دیں ان کا قبضہ ایسا ہی ہے جیسا کہ زکوۃ کی رقم خود مال والے کے پاس رکھی ہو۔
اس معاملہ میں عام طور پر غفلت برتی جاتی ہے، بہت سے ادارے زکوۃ کا فنڈ ہوں کر کے اس کو سالہا سال رکھے رہتے ہیں اور اصحاب زکوٰہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زکوۃ ادا ہوگئی حالانکہ ان کی زکوۃ اس وقت ادا ہو گی جب ان کی رقم مصارف زکوۃ میں صرف ہو جائے ۔ اسی طرح بہت سے لوگ ناواقفیت سے ان لوگوں کو عاملین صدقہ کے حکم میں داخل سمجھ کر زکوۃ ہی کی رقم سے ان کی تنخواہ دیتے ہیں، یہ نہ دینے والوں کے لئے جائز ہے نہ لینے والوں کے لئے ۔"
(سورۃ التوبہ، ج نمبر ۴، ص نمبر ۳۹۹، مکتبہ معارف القران)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."
(کتاب الزکوۃ، ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۷۰، دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وتجب على الفور عند تمام الحول حتى يأثم بتأخيره من غير عذر، وفي رواية الرازي على التراخي حتى يأثم عند الموت، والأول أصح كذا في التهذيب."
(کتاب الزکوۃ،باب اول، ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۷۰، دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء»
قوله: ولا يخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثا عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي لأن يده كيد الفقراء بحر عن المحيط."
(کتاب الزکوۃ، ج نمبر ۲، ص نمبر ۲۷۰، ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100043
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن