ایک مولوی صاحب کو ایک شخص نے مدرسےکے واسطے کچھ مدت کےليے اپنی زمین دی تھی،لیکن مولوی صاحبِ مال کے اعتبار سے کمزور ہے، اور صاحبِ زمین استعداد نہیں رکھتے ،کہ اس زمین پر کوئی عمارت بنواسکے،تو مولوی صاحب نےاِرادہ کیاکہ مدرسےکے نام زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ دیگرنفلی صدقات وعطیات بطورِ چندہ کے اصول کیا جائےاوراُس رقم سے مدرسہ بنوایا جائے، کیا اس طریقے سے چندہ اصول کرناجائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کےلیے زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر)کے علاوہ باقی نفلی صدقات وعطیات مدرسے کی تعمیراتی کاموں میں استعمال کرناجائز ہے،زکوۃ و صدقات کا استعمال جائز نہیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."
(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:188، ط: دارالفكر بيروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه نهر (و) لا إلى (ثمن ما) أي قن (يعتق) لعدم التمليك وهو الركن."
(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوٰۃ و العشر، ج:2، ص:345، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144410101809
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن