بعض دفعہ خاندان میں کوئی ایسا شخص ہوتا ہے کہ اگر اس کو صدقہ دیا جائے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے اس مشکل وقت میں راشن خرید لے تو وہ ان پیسوں کو نشے میں اڑا دیتا ہے یا کسی ثانوی کام میں لگا لیتا ہے۔ اب ہم مثلًا دوبئی سے راشن خرید کر تو نہیں بھیج سکتے، پیسے ہی دینے ہوں گے۔ تو کیا ہم وہ صدقہ یا ہدیہ کا پیسہ بھیج کر شرط لگا سکتے ہیں، اس پیسے سے مثلًا راشن ہی خریدنا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ایسی کیا صورت اختیار کی جائے کہ وہ اس پیسے کو صحیح جگہ خرچ کرنے کا پابند ہو؟
زکوۃ اور صدقہ واجبہ ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی مستحقِ زکاۃ مسلمان کو بغیر عوض کے مالک بناکردی جائے اور اس رقم یا چیز میں مکمل مالکانہ حقوق اس کو دیے جائیں کہ وہ جس طرح چاہے جائز طور پر اس میں مالکانہ تصرف کرے، زکاۃ دینے والے کی طرف سے کسی قسم کی اس طرح پابندی اور شرائط لگانا جس سے مستحق شخص اپنی مرضی سے مکمل طور مالکانہ تصرف نہ کرسکتا ہو ، درست نہیں ہے، لیکن زکوٰۃ دینے والے نے کسی فائدہ کی غرض سے یہ شرط لگائی ہو اور زکوٰۃ کی رقم مالک بناکر ہی دے دی ہو تو اس شرط کی وجہ سے زکوٰۃ کی ادائیگی باطل نہیں ہوگی، بلکہ زکوٰۃ ادا ہوجائے گی،اور اس شرط کی حیثیت مشورہ اور وعدہ کی ہوگی۔
نیز سوال میں ذکر کردہ عذر کے حل کے لیے یہ بے غبار صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے اگر ان کے گھر میں کوئی اور شخص مستحق ہو تو اس کے لیے یہ رقم بھیج دی جائے، تاکہ جس شخص کے بارے میں اس کا اندیشہ ہو وہ اس میں غلط تصرف نہ کرسکے، یا یہ رقم کسی اور جاننے والے شخص کو بھیج کر انہیں وکیل بنادیا جائے کہ وہ اس شخص کو راشن خرید کر دے دیں ، اس سے آپ کی زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی اور ان کے گھر تک راشن بھی پہنچ جائے گا۔
الفتاوى الهندية (1/ 170):
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع، كذا في التبيين".
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109201716
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن