بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ ادانہ کرنے والے اور مخلوط آمدن والے سے قرض لینے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کو ئی شخص زکوۃ ادا نہیں کرتا یا بیوع ِفاسدہ کا ارتکاب کرتا ہے تو کیا کوئی دوسرا آدمی اس شخص سے کاروبار کے لئے قرض لے سکتا ہے یانہیں ؟اور کیا اس سے بطورِمضاربت کے پیسے لے سکتے ہیں یا نہیں ؟

2:دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا شخص سے (جو زکوۃ ادا نہیں کرتا یا بیوع ِفاسدہ کا ارتکاب کرتا ہے ) ہدیہ قبول کرنا جائز ہے یا نہیں ؟اور اس کی دعوت قبول کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

  جو شخص زکوۃ ادا نہیں کرتا تو وہ  سخت گنا ہ گار ہےالبتہ ایسے شخص سے قرض لینا   يا اس سے بطور ِمضاربت كے پيسے لينا اور اس كا ہدیہ قبول كرنا اور اس كي دعوت قبول كرنا جائز ہے ۔

جو شخص بيوع فاسده كا ارتكاب كرتا هے اس كي آمدن كو ديكھا جائے گا اگر اس کی غالب آمدن حلال کی ہو تو اس سے قرض لینا ،مضاربت کے لئے پیسے لینا ،اس کا ہدیہ قبو ل کرنا اور اس کی دعوت قبول کرنا جائز ہو گا ،اور اگر اس کی غالب آمدن حرام کی ہو تو پھر اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں  ہے ۔

بخاری شریف میں ہے :

"عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ : من آتاہ اللہ مالا، فلم یؤد زکاتہ مثل لہ مالہ یوم القیامۃ شجاعا أقرع لہ زبیبتان یطوقہ یوم القیامۃ، ثم یأخذ بلہزمتیہ یعنی بشدقیہ ___ ثم یقول أنا مالک أنا کنزک."

(صحیح البخاری ،ج :270/1,رقم الحديث:1403،ط:رحمانيه لاهور)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."

(كتاب الكراهية ،الباب الثاني عشر  في الهدايا  و الضيافات ،ج 342/5 ،ط: رشیدیہ،کوئٹہ)

فقط  والله اعلم 


فتوی نمبر : 144308100592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں