بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کن کن چیزوں پر لازم ہے؟ پراپرٹی اور سواری پر زکاۃ کا حکم


سوال

زکاۃ کن کن چیزوں پر فرض ہے؟سواری اور پراپرٹی پر زکاۃ فرض ہے؟

جواب

زکاۃ صرف اس مال پر فرض ہے جو عادۃً بڑھتاہو، (خواہ حقیقتاً بڑھے یا حکماً)  جیسے مالِ تجارت یا مویشی یا سونا چاندی اور نقدی،  سونا، چاندی  اور نقدی کو اسلام نے تجارت کا ذریعہ قرار دیا ہے ؛ اس لیے سونا چاندی  پر بہرصورت زکاۃ لازم ہے، چاہے  کوئی زیور بنا کر رکھے یا ٹکڑے بنا کر رکھے، ہر حال میں وہ بڑھنے والا مال ہے؛ اس لیے اگر وہ نصاب کے برابر ہو  اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس پر زکاۃ فرض ہے، ان چار قسموں (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) کے اموال کے علاوہ  ذاتی مکان، دکان ، گاڑی، برتن ، فرنیچر اور دوسرے گھریلو سامان ، ملوں  اور کارخانوں کی مشینری ، اور جواہرات وغیرہ  اگر تجارت کے لیے  نہیں ہیں تو ان پر زکاۃ فرض نہیں ہے، ہاں اگر ان میں سے کوئی  ایک بھی چیز  فروخت کرنے کی نیت سے خریدی اور اس کی قیمت نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے  تو سال گزرنے پر  اس کی  زکاۃ فرض ہوگی۔

پراپرٹی اگر کسی شخص نے کرایہ پر دینے کی غرض سے خریدی ہے تو  ایسی پراپرٹی  کی ویلیو پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔ البتہ کرایہ پر دینے کے بعد جو کرایہ وصول ہوگا اگر وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زائد ہو  اور اس پراپرٹی کا مالک  پہلے سے صاحبِ نصاب نہ ہو  تو  اس کرایہ کے حصول کے بعد صاحبِ نصاب شمار ہوگا اور سال مکمل ہونے کے بعدجتنا  کرایہ محفوظ ہو اور اور نصابِ زکاۃکے برابر یا زائد ہو تو کل کا ڈھائی فیصد بطور زکاۃ ادا کرنا  لازم ہوگا ۔ اور اگر ایسی پراپرٹی کا مالک پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو سال مکمل ہونے کے بعد  کل نقدی میں محفوظ کرایہ کو شامل کرکے زکاۃ ادا کرے گا۔ اور اگر کرایہ سال بھر استعمال کرلیا اور کچھ نہ بچا تو اس کرایہ پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔

جو  پراپرٹی   رہائش کی نیت سے خریدی گئی ہو  تو اس پر  شرعاً زکاۃ لازم نہیں ہوتی، اسی طرح سے جو دوکان  وغیرہ اس غرض سے خریدی ہو کہ اس میں کاروبار کیا جائے گا تو اس دوکان کی ویلیو  پر بھی زکات واجب نہیں ہوتی، اسی طرح  پراپرٹی خریدتے وقت اگر  کوئی نیت نہیں کی ہو (کہ اس کو  بیچنا ہے یا رہائش اختیار کرنی ہے) تو اس پر بھی زکات نہیں ہے۔

البتہ جو پراپرٹی تجارت کی نیت سے لی ہو کہ اس کو فروخت کر کے نفع کمایا جائے گا تو ایسی تمام پراپرٹیز  اگر نصاب کے بقدر ہوں تو  ہر سال ان کی موجودہ ویلیو کا حساب  کر کے کل کا ڈھائی فیصد بطور زکوٰۃ ادا کرنا شرعاً لازم  ہوگا۔

اگر سواری تجارت ( یعنی بیچ کر نفع کمانے ) کی نیت سے نہیں خریدی تو اس پر زکات واجب نہیں ہوتی، چاہے سواری ایک ہو  دو ہوں یا دو سے زیادہ ہوں۔ اگر سواری تجارت ( یعنی بیچ کر نفع کمانے ) کی نیت سے خریدی گئی ہوتوایسی سواری اموالِ زکاۃ میں شمار ہوگی اور  اس پر زکاۃ لازم ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں