بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کی رقم سے قرآن مجید تقسیم کرنا/ فی سبیل اللہ سے کیا مراد ہے؟


سوال

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ  زکاۃ کی رقم سے لوگوں میں قرآن تقسیم کیے جا سکتے ہیں،  راہ نمائی فرما دیں؟  اور  زکاۃ کے مصارف میں  "فی سبیل اللہ"  سے کیا مراد ہے؟

جواب

قرآن پاک زکوۃ کی رقم سے خرید کر مستحق زکوۃ غریب بچوں اور بڑوں کو مالک بنا کر دینا جائز ہے، اسے زکوۃ ادا ہو جائیگی اور صدقہ جاری کا ثواب ملے گا۔ البتہ زکوۃ کی رقم سے قرآن کریم خرید مسجد میں رکھنا جائز نہیں ہے؛   اس لیے تملیک نہ پائے جانے کی وجہ سے وہ زکوة  ادا نہ ہو گی، کیونکہ  مسجد میں مالک بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ نیز زکات کی مصارف میں ابن السبیل سے مراد مسافر ہے: یعنی وہ مسافر جو گھر سے دور ہونے کی وجہ سے اپنے مال سے جدا ہے،اگرچہ اس کے گھر میں پیسے موجود ہیں لیکن سفر میں اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اور گھر سے فوری طور پر منگوانے کی بھی کوئی صورت نہیں ہے، اور جہاں خود موجودہے وہاں کسی دوست احباب سے قرض کے طور پر لینے کی بھی کوئی صورت نہیں ہے، تو ایسے مسافر کے لیے اپنی ضرورت کے بقدر  زکوۃ لینا اور ایسے مسافر کو زکوۃ دینا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے: 

(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء.(کتاب الزکاۃ، باب زکوۃ الغنم، ج: 2، صفحہ: 285، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضاً:

(قوله: وابن السبيل) هو المسافر سمي به للزومه الطريق زيلعي (قوله: من له مال لا معه) أي سواء كان هو في غير وطنه أو في وطنه.(کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزكاة والعش، ج:، 2، صفحہ: 343، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين

(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج: 1، صفحہ: 170، دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

(ومنها ابن السبيل) ، وهو الغريب المنقطع عن ماله كذا في البدائع. جاز الأخذ من الزكاة قدر حاجته، ولم يحل له أن يأخذ أكثر من حاجته وألحق به كل من هو غائب عن ماله، وإن كان في بلده؛ لأن الحاجة هي المعتبرة ثم لا يلزمه أن يتصدق بما فضل في يده عند قدرته على ماله كالفقير إذا استغنى كذا في التبيين. والاستقراض لابن السبيل خير من قبول الصدقة كذا في الظهيرية.

(کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف، ج: 1، صفحہ: 188، ط: دار الفکر) وفی زبدۃ الفقہ، ص: 453، ط: زوار اکیڈمی )  فقط واللہ اعلم

 

 


فتوی نمبر : 144207200189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں