کیا زکات کا روپیہ مسجد یا مدرسہ کے مقدمے میں لگانا جائز ہے یا نہیں؟
زکات کی ادائیگی کے لیے فقراء کو مالک بنانا شرط ہے، اور مسجد یا مدرسہ کے مقدمہ میں خرچ کرنے کی صورت میں تملیک نہیں پائی جاتی؛ اس لیے زکات کی رقم مسجد یا مدرسہ کے مقدمہ میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."
(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها و شرائطها، ج: 1، صفحه: 170، ط: دارالفکر)
الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكًا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه نهر (و) لا إلى (ثمن ما) أي قن (يعتق) لعدم التمليك وهو الركن. (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي."
(کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ج: 1، صفحه: 344و 345، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200379
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن