بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی ادائیگی میں وکیل بنانا


سوال

میں ہر سال ایک شخص کو زکوۃ دیتا ہوں ،اب وہ بندہ کہے کہ میں زکوۃ کا مستحق ہوں لیکن مجھے ابھی ضرورت نہیں ہے زکوۃ کی ،میری ضرورت پوری ہو رہی ہے البتہ میری بہن ہے اس کوضرورت ہے زکوۃ کی اور وہ مستحق زکوۃ بھی ہے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں اس کو جانتا ہوں اس کی بہن کو نہیں ،تو میں جس بندے کو دیتا ہوں اس کو میں نے یہ بتایا ،تو اس نے مجھے یہ تائثر دیاکہ "چلو آپ مجھے دیجئےپھر  میں اپنی مرضی سے ان کو دے دوں گا ،یا آپ جیسا بہتر سمجھیں "اس کے بارے میں مجھے بتائیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اس کو زکوۃ دے دوں اور وہ اپنی طرف سے کسی کو بھی دے دیں تو کیا اس سے زکوۃ ادا ہو جائے گی ؟حالانکہ وہ شخص مستحق ہے لیکن کہہ رہا ہے کہ مجھے ابھی ضرورت نہیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر  یہ شخص مستحق زکوۃ ہے تو اسے زکوۃ کی رقم د ینے سے آپ کی زکوۃ ادا ہو جائے گی ،اس کے بعد اس کی مرضی ہے کہ وہ خود رکھے یا اپنی بہن کو دےاس سے زکوۃ کی ادائیگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ،باقی اگر سائل کو اس شخص کی بات پر اعتماد ہو تواسے اپنی زکوۃ ا دا کرنے کا وکیل بنا دےاور وہ سائل کی طرف سے اپنی بہن کو زکوۃ دے دے تو بھی سائل کی زکوۃ ادا ہو جائے گی ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے : 

"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل كذا في معراج الدراية فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، ولم ينو عند الدفع جاز." 

( کتاب الزکوۃ ،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،1 / 171 ،ط: دار الفکر بیروت ) 

فتاوی شامی  میں ہے :  

"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت." 

(کتاب الزکوۃ ، 2 / 269 ،ط : سعید ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں