میرے پاس ایک رکشہ ہے جس پر میں لوڈنگ کا کام کرتا ہوں ، میں رکشہ میں سامان لے جارہا تھا کہ مجھے لوٹ لیا گیا، سارا سامان، موبائل اور پیسے وغیرہ لے گئے، میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں، ذاتی کوئی مکان نہیں ہے، ابھی ایک پگڑی کا مکان تین لاکھ میں خریدا ہے، اس کی رقم بھی ادا نہیں کی، اور ماہانہ دس ہزار روپے ادائیگی کرنی ہے، میں اپنی کمیونٹی کے پاس گیا، اور قرض کا مطالبہ کیا لیکن انھوں نے قرضہ دینے سے انکار کردیا، البتہ یہ کہا کہ ہم آپ کو زکات دے سکتے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا میرے لیے زکات لینا جائز ہے؟ اور میں شرعاً زکات کا مستحق ہوں یا نہیں؟
اگر آپ کے پاس نصاب کے بقدر سونا، چاندی یا ضرورت سے زائد نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر رقم نہیں ہے اور نہ ہی آپ کی ملکیت میں ضرورت سے زائد سامان موجود ہےکہ جس کی مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولے)کی قیمت کے برابر بنتی ہو،نیز آپ مذکورہ مكان كی رقم کے مقروض بھی ہیں، اور آپ سید،ہاشمی، عباسی، علوی یا جعفری بھی نہیں ہیں تو ایسی صورت میں آپ کےلیے زکات لینا جائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة. (ومسكين من لا شيء له) على المذهب....(ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير.....(لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).....(و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب."
(کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزکاۃ والعشر، ج:2، ص:339، ط: سعید)
وفيه أيضا:
"(يصرف) المزكى (إلى كلهم أو إلى بعضهم) ولو واحد من أي صنف كان؛ لأن أل الجنسية تبطل الجمعية، وشرط الشافعي ثلاثة من كل صنف. ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) ... (و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب، فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب. ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع، وقول العيني والهاشمي: يجوز له دفع زكاته لمثله صوابه لا يجوز نهر (و) لا إلى (مواليهم).
(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعة وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعة انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب فإنه أعقب اثني عشر تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لا ينبغي إذ لا تحرم عليهم كلهم بل على بعضهم ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضا إلى هاشم وتحل لهم الصدقة. اهـ.
وأجاب في النهر بقوله وأقول قال في النافع بعد ذكر بني هاشم إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله صلى الله عليه وسلم لا قرابة بيني وبين أبي لهب فإنه آثر علينا الأفجرين وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف على بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل لعدم قرابته وهذا حسن جدا لم أر من نحا نحوه فتدبره. اهـ."
(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج:2، ص:344، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102576
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن