بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدنے کے بعد گاڑی فروخت کرنے کا ارادہ کیا ہو تو کیا اس کی مالیت پر زکات واجب ہے؟


سوال

میں نے گھر کےلئے گاڑی خریدی، بعد میں یہ ارادہ کرلیا کہ اگر کوئی مناسب ریٹ آیا تو بیچ دوں گا، ابھی اس پر زکات ہے یا نہیں؟ اگر بیچ دی تو اس ثمن پر زکات کا کیا حکم ہے؟ ثمن پر سال کا گزر نا ضروری ہے یا گاڑی پر؟

جواب

گاڑی خریدتے وقت چونکہ اسے بیچنے کی نیت نہیں تھی اس لیے گاڑی کی مالیت پر زکات واجب نہیں ہے، البتہ جب آپ گاڑی فروخت کردیں گے تو اس سے حاصل شدہ رقم مال زکات شمار ہوگی اور اس پر زکات کے احکام لاگو ہوں گے۔ 

لہذا اگر آپ پہلے سےزکات کے نصاب کے مالک ہوں تو زکات واجب ہونے کی جو متعینہ تاریخ ہے اس دن تک اگر یہ رقم آپ کی ملکیت میں موجود ہو تو اسے بھی دیگر مالِ زکات کے ساتھ ملایا جائے گا اور سب کی ڈھائی فیصد  زکات ادا کی جائے گی، اس رقم پر الگ سے سال گزرنا ضروری نہیں اور اگر زکات کی متعینہ تاریخ آنے سے پہلے ہی یہ ساری یا کچھ رقم خرچ ہوجائے تو خرچ شدہ رقم پر زکات واجب نہیں ہوگی۔ 

اور اگر آپ پہلے سے زکات کے نصاب کے مالک نہ ہوں بلکہ گاڑی کی فروختگی سے حاصل شدہ رقم کی وجہ سے نصاب کے مالک بنے ہوں تو پھر اس رقم پر قمری مہینوں کے اعتبار سے  سال گزرنا ضروری ہوگا، اگر سال بعد یہ ساری یا کچھ رقم موجود ہو بشرطیکہ موجود رقم نصاب کے برابر ہو تو اس میں زکات واجب ہوگی، اور اگر سال پورا ہونے سے پہلے پہلے یہ ساری یا کچھ رقم خرچ ہوجائے اور باقی ماندہ رقم نصاب کے برابر نہ ہو تو زکات واجب نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ ہے کہ زکات کا حکم گاڑی فروخت ہوجانے کے بعد اس کی قیمتِ فروخت پر لاگو ہوگا، گاڑی کی مالیت پر زکات کا حکم لاگو نہیں ہوگا۔  

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة."

(‌كتاب ‌الزكاة،الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها،1/ 172، ط: رشيدية)

وفيها أيضاً:

"(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة كذا في الهداية. ولو استبدل مال التجارة أو النقدين بجنسها أو بغير جنسها لا ينقطع حكم الحول، ولو استبدل السائمة بجنسها أو بغير جنسها ينقطع حكم الحول كذا في محيط السرخسي.

ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك، ولو كان من غير جنسه من كل وجه كالغنم مع الإبل فإنه لا يضم هكذا في الجوهرة النيرة. فإن استفاد بعد حولان الحول فإنه لا يضم ويستأنف له حول آخر بالاتفاق هكذا في شرح الطحاوي. ثم إنما يضم المستفاد عندنا إلى أصل المال إذا كان الأصل نصابا فأما إذا كان أقل فإنه لا يضم إليه، وإن كان يتكامل به النصاب وينعقد الحول عليهما حال وجود النصاب كذا في البدائع."

(‌كتاب ‌الزكاة،الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها،1/ 175، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں