بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجہ مفقود کے نکاح کرلینے کے بعد اس کے پہلے شوہر کے واپس آجانے کی صورت میں شرعی حکم اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فیصلے کی وضاحت


سوال

پہلے شوہر کے لا پتہ ہونے کے بعد تمام شرائط کو پورا کرنے کے بعد عورت دوسری شادی کرتی ہے، اور جب پہلا شوہر واپس آجائے اور عورت پہلے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اس کے بارے میں کیا  فتویٰ ہوگا؟

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے مفقود (گم شدہ) کی بیوی کو چار سال انتظار کرنے کا حکم دیا ، اس کے بعد اس کو شادی کی اجازت دی ،کچھ مدت بعد گم شدہ خاوند واپس آگیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس مرد کو اختیار دیا کہ وہ اپنی بیوی کو لوٹائے یا حق مہر واپس لے لے،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے، امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "المسائل "میں فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے سنا وہ فرماتے ہیں:"مجھے اس مسئلے میں کوئی شک نہیں کیونکہ پانچ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ فتوی دیا ہے کہ وہ (چار سال)انتظار کرے۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول سب سے صحیح قول ہے اور عقل کے زیادہ قریب ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ یہی قول درست ہے،‘‘ جب ایسی عورت کی عدت گزر جائے تو کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا مباح ہو جا تا ہے،عورت کو عدت وفات کے بعد گم شدہ شخص کے ولی سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں ،اگر اس نے دوسری جگہ شادی کر لی، پھر اس کا پہلا شوہر آگیا تو اسے اختیار ہے کہ وہ شوہر ثانی سے طلاق کا مطالبہ کرے یا اپنی بیوی کو اس شخص کے نکاح میں رہنے دے اور اپنا ادا شدہ حق مہر واپس لے لے، اس میں کوئی فرق نہیں کہ پہلے شوہر کی واپسی دوسرے شوہر کے جماع کرنے کے بعد ہو یا پہلے ہو،شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’گم شدہ شخص کی بیوی کی عدت کے بارے میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذہب درست ہے اور وہ یہ کہ اولاً چار سال گزارے، پھر (قاضی کے فیصلے کے بعد) عدت وفات چار ماہ دس دن پورے کرے۔ اس کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے، نکاح کی صورت میں ظاہر و باطن دوسرے شخص کی بیوی ہو گی پہلے گم شدہ شخص کی نہیں، دوسرے آدمی سے نکاح کر لینے کے بعد اگر عورت کا پہلا شوہر لوٹ آیا تو اسے اختیار ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو دوبارہ حاصل کرے یا اس سے ادا شدہ حق مہر واپس لے اور اسے دوسرے آدمی کے نکاح میں رہنے دے، شوہر ِثانی نے اس عورت سے مجامعت کر لی ہو یا نہ کی ہو، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ظاہر مذہب یہی ہے،‘‘ شیخ موصوف فرماتے ہیں:"شوہر اول کو عورت اور مہر کے بارے میں جو اختیار دیا گیا ہے ،وہ عدل و انصاف سے پوری طرح مطابقت وموافقت رکھتا ہے۔"اعلام الموقعین"2/49 اورالفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ ،

الغرض  ان اقوال کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ ان کے مطابق تو عورت حق مہر پہلے شوہر کو واپس کر کے دوسرے شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے؟

جواب

ایک عورت کا شوہر اگر غائب ہوجائے اور چار سال گزرنے کے باجود بھی اس کی کوئی خبر نہ ملے اور عورت اپنا مقدمہ مسلمان قاضی کی عدالت میں پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص کے ساتھ ہوا تھا، پھر گواہوں سے اس کا مفقود اور لاپتہ  ہونا ثابت کرے اور قاضی اس کی تفتیش  کے بعد فسخِ نکاح کا فیصلہ دے اور عورت اپنے شوہر کی عدت چارماہ دس دن گزارکر دوسری جگہ  شادی کرلے، دوسرے آدمی سے شادی کرنے کےبعد اگر  عورت کا پہلا (غائب) شوہر واپس آجاتاہے توایسی صورت میں  حضراتِ فقہاء حنفیہ رحمہم اللہ کا فتویٰ یہ ہے کہ    ایسی صورت میں مذکورہ خاتون پہلے شوہر ہی کی بیوی رہے گی  اور اس سے بدستور نکاح برقرار رہے گااور دوسرے شوہر سے نکاح  خودبخود باطل ہوجائےگا؛ كیوں کہ دوسر ے شوہر سے   نکاح اس  بنیا دپر کیا گیا تھا کہ پہلا شوہر وفات  پاچکاہے ،لیکن جب پہلا شوہر    ظاہر ہوکر آگیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی وہ خبر درست نہیں تھی ،اس لیے پہلے شوہر سے نکاح  بدستور برقراررہے گا، اور پہلے شو ہرسے نکاح کے قائم  ہونے کی حالت میں دوسرے شوہر سے  نکاح  بنصِ قرآنی ناجائز ہے،  اس وجہ سے حضراتِ فقہاء احناف نے اس قول کو اختیارکرکے اس پر فتویٰ دیا کہ دوسرے شوہر کے واپس آنے کی صورت میں دوسرے شوہر سے نکاح خودبخود باطل ہوکر پہلے شوہر سے نکاح  بدستور قائم رہےگا،اور جہاں تک بات ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے کی  کہ انہوں  نے فرمایاکہ  "ایسی صورت میں  پہلے شوہر کو اختیارہے کہ اپنی بیوی کو اپنی طرف لوٹائے یا  اس کا مہر اداکرے اور اس وہ دوسرے  شوہر  کی بیوی بن کر اسی کے پاس رہے " اس  بارے میں واضح رہے کہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اپنے اس فیصلے سے رجوع کرکے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مذہب کو اختیار کرلیا تھا،اس وجہ سے اس باب  میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے استدلال کرنا  شرعاً درست نہیں ہے، اور نص ہونے کی صورت  میں  اسی کو اختیار کرنا شرعاً لازمی اور ضروری ہے، بعضِ حضرات کے اقوال کی طرف جانے کی اجاز ت نہیں ہے۔

قرآنِ کریم میں  ارشادہے:

"والمحصنات من النساء.إلخ"(سورة النساء:آيت:24)."

 ترجمہ:’’اور وہ عورتیں جو کہ شوہر والیاں ہیں(یعنی ان سے نکاح حرام ہے)‘‘

المبسوط للسرخسي میں  ہے:

وكأن عمر رضي الله عنه إنما رجع عن قوله في امرأة المفقود لما تبين من حال هذا الرجل، ‌وأما ‌تخييره ‌إياه ‌بين ‌أن ‌يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت، وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حيا إنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضا؛ لأنه تبين أنها تزوجت، وهي منكوحة ومنكوحة الغير ليست من المحللات بل هي من المحرمات في حق سائر الناس كما قال الله تعالى: {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] فكيف يستقيم تركها مع الثاني، وإذا اختار الأول المهر، ولكن يكون النكاح منعقدا بينهما فكيف يستقيم دفع المهر إلى الأول، وهو بدل بضعها فيكون مملوكا لها دون زوجها كالمنكوحة إذا وطئت بشبهة، فعرفنا أن الصحيح أنها زوجة الأول، ولكن لا يقربها لكونها معتدة لغيره كالمنكوحة إذا وطئت بالشبهة،وذكر عن عبد الرحمن بن أبي ليلى رحمه الله أن عمر رضي الله عنه رجع عن ثلاث قضيات إلى قول علي رضي الله عنه، عن امرأة أبي كنف، والمفقود زوجها، والمرأة التي تزوجت في عدتها. "

(ج:11، ص:38، ط: دارالمعرفة)

البنایة في شرح الهداية  میں  ہے:

"وقال الكاكي: وذكر عبد الرحمن بن أبي ليلى أن عمر رضي الله عنه ‌رجع ‌عن ‌ثلاث ‌قضيات إلى قول علي رضي الله عنه أحدها مال المفقود وغيرها مذكور في " المبسوط ."

(ج:7، ص: 365، ط: دارالکتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں