بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زیتون کا تیل نکالنے والوں کے لیے وہی تیل اجرت میں دینا


سوال

ایک شخص نے زیتون کا پھل لےکر کسی پلانٹ والوں کو اس پھل کا تیل نکالنے کے لیے دیا ، پلانٹ والوں نے مزدوری میں اسی نکالے گئے تیل سے اپنا حصہ شرط کیا، اب سوال یہ ہے کہ کیا پلانٹ والوں کا اس طرح شرط لگانا جائز ہے؟نیز واضح فرمائیں کہ زیتون کے مالک کے پاس جو تیل باقی ہے،  اس کی خرید وفرخت کا کیا حکم ہے؟

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں پلانٹ والوں کا اُس متعینہ زیتون  سے نکالنے والے تیل کو بطورِ اجرت طے کرنا جائز نہیں ہے، شریعت کی رو سے یہ معاملہ قفیز الطحان میں داخل ہونے کی وجہ سے فاسد ہے، پلانٹ والوں کو اجرتِ مثل (یعنی کہ مارکیٹ میں اگر کوئی مذکورہ مقدار زیتون کے پھل سے تیل نکالے، تو اس کی جو اجرت بنتی ہے، وہ اجرت پلانٹ والوں کو)ملے گی۔

مذکورہ معاملہ کے جواز کی صورت یہ ہےکہ زیتون کا مالک پہلے سے ہی زیتون کی ایک متعین مقدارباہمی رضامندی سے طے کرکے پلانٹ والوں کو اجرت میں دیدے، یا پلانٹ والے مذکورہ زیتون کے تیل کواجرت میں متعین کرنے کےبجائےکسی بھی زیتون کی ایک متعین مقدار اجرت میں طے کرلیں یا رقم متعین کرلیں اس کے بعد تیل کا مالک زیتون کے بدلہ میں تیل دے دے یا طے شدہ رقم دے دے تو یہ معاملہ جائز ہوگا ۔ 

2- مذکورہ فاسد معاملہ میں زیتون کے مالک کے پاس جو تیل رہ جائے، وہ اس کی ملکیت ہے،اس کی خرید وفروخت جائز ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو دفع سمسما إلى دهان ليعصره على أن يكون بعض الدهن له أو شاة ليذبحها على أن يكون بعض اللحم له لا يجوز. كذا في خزانة المفتين."

(كتاب الاجارة، [الباب الخامس عشر في بيان ما يجوز من الإجارة وما لا يجوز، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، ٤٤٥/٤، ط:رشيدية)

الدر مع الرد میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلا لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه - صلى الله عليه وسلم - عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولا أو يسمي قفيزا بلا تعيين ثم يعطيه قفيزا منه فيجوز.

(قوله فسدت في الكل) ويجب أجر المثل لا يجاوز به المسمى زيلعي (قوله بجزء من عمله) أي ببعض ما يخرج من عمله، والقدرة على التسليم شرط وهو لا يقدر بنفسه زيلعي (قوله والحيلة أن يفرز الأجر أولا) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولا يكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معا ولا شك في جوازه اهـ. (قوله بلا تعيين)أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر زيلعي."

(كتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة، ٥٧/٦، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100981

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں