بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر تعمیر بلڈنگ پر زکوة کا حکم


سوال

میرا  ایک  دوست  اسلام آباد میں ایک دس منزلہ بلڈنگ اپارٹمنٹ کی صورت میں تعمیر کررہا ہے،  تعمیر اب ابتدائی مراحل میں ہی ہے،  لیکن ساتھ ہی وہ ان اپارٹمنٹ کو قسطوں میں بیچنا چاہتا ہے،  اور کچھ اپارٹمنٹس کی بکنگ بھی ہوچکی ہے اور تعمیرات بھی جاری ہیں۔

نیز وہ  اس بلڈنگ کا گراؤنڈ فلور اپنے پاس رکھ کر اس میں اپنا بزنس شروع کرے گا۔

اپ پوچھنا یہ ہے ہےکہ اس پراجیکٹ پر زکوٰۃ کیسے ادا کی  جائے گی ؟

کیا تعمیراتی اخراجات کو بھی زکوٰۃ  کے حساب میں شامل کیا جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ از روئے شرع خرید و فروخت صحیح ہونے کے لیے فروخت کردہ چیز کا وجود میں آنا ضروری ہوتا ہے، لہذا زیر تعمیر عمارت کے وہ فلیٹ جن کا وجود نہ ہو، انہیں فروخت کرنا، شرعا جائز نہیں ہوتا، البتہ ایسے فلیٹ کی بکنگ  کرانا  جائز ہوتا ہے، جو کہ درحقیقت فریقین کے درمیان  وجود میں آنے کے بعد اس کی خرید و فروخت کا وعدہ  ہوتا ہے، اور وعدہ کی بنیاد پر قسطیں وصول کرنے کی اجازت ہوتی ہے، پس جیسے جیسے عمارت تعمیر ہوتی جاتی ہے، فریقین کے درمیان خرید و فروخت کا سودہ مکمل  ہوتا جاتا ہے،  اور فروخت کنندہ رقم کا مالک ہوجاتا ہے، جب کہ خریدار اپنے فلیٹ کا مالک بن جاتا ہے، اور تعمیرات نہ ہونے کی  صورت  میں   رقم   کا مالک بدستور بکنگ کرانے والا ہوتا ہے،  اور رقبہ پر ملکیت بلڈر کی باقی رہتی ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں قسطوں کی مد میں جمع شدہ رقم کی زکوة  بکنگ کرانے والے افراد پر واجب ہوگی، اور رقبہ کی زکوة بلڈر پر واجب ہوگی۔

زکات کا سال مکمل ہونے کی تاریخ   تک جو رقم تعمیرات میں صرف ہوچکی ہے وہ رقم  تو زکات کے حساب میں شمار نہیں ہوگی،  لیکن اس تاریخ  میں مذکورہ پروجیکٹ  کی موجودہ مالیت  پر زکات واجب ہوگی،   ہاں اس میں سے  اس تاریخ تک واجب الادا قرض منہا کیے جائیں گے، خواہ وہ تعمیرات  کی مد میں ہوں۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائعمیں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم الخ."

(کتاب البیوع،فصل فی الشرائط اللذی یرجع الی المعقود علیہم، ٥/  ١٣٨، ط: سعيد)

رد المحتار علي الدر المختار  میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لاينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحاً. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعاً بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى."

( كتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطى، ٤ / ٥١٦،  ط: سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

" وأما صفة الاستصناع: فهي أنه عقد غير لازم قبل العمل في الجانبين جميعا، بلا خلاف، حتى كان لكل واحد منهما خيار الامتناع قبل العمل، كالبيع المشروط فيه الخيار للمتبايعين: أن لكل واحد منهما الفسخ؛ لأن القياس يقتضي أن لا يجوز؛ لما قلنا.

وإنما عرفنا جوازه استحسانا؛ لتعامل الناس، فبقي اللزوم على أصل القياس."

( كتاب الاستصناع، فصل في صفة الاستصناع، ٥ / ٣، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

"وأما حكم الاستصناع: فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم."

( كتاب الاستصناع، فصل في حكم الاستصناع، ٥ / ٣، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

فقط واللہ ا علم


فتوی نمبر : 144404101937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں