بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر ناف بال کاٹنے کی حدود


سوال

زیرِ  ناف بال کہاں تک صاف کریں اور کیا پاخانہ کی جگہ کے  بال بھی کاٹنے کے حکم میں  شامل ہیں؟

جواب

’مثانہ‘‘  سے نیچے  پیڑوں  کی ہڈی  سے لے کررانوں کی جڑوں تک اور پیشاب پاخانہ کی جگہ کے اِردگرد زیرِناف بال مونڈنے چاہییں،  رانوں اور سرین کے بالوں پر جہاں نجاست لگنے کا زیادہ امکان رہتاہے وہاں تک بال کاٹیں، اس کے علاوہ رانوں کے بال کاٹنے کی ضرورت نہیں۔

   حدیث میں مذکور لفظ  "عانة" کے مصداق کی تعیین میں محدثین واہلِ لغت کے مختلف اقوال ہیں، فتح الباری اور فتاویٰ ہندیہ  کی درج ذیل عبارات کو  مدنظر رکھ  کر بعض جید مفتیانِ کرام کی رائے یہ ہے کہ زیرِ ناف بال ناف کے متصل نیچے سے ہی صاف کرلینے چاہییں۔ 

پاخانے کے مقام کے بال بھی زیرِ ناف بالوں کی طرح کاٹنا ضروری ہے، شامی اور فتح الباری میں ہے کہ ان کی صفائی کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے؛ کیوں کہ بوقتِ ضرورت صرف  پتھر سے استنجا کرنے کی صورت میں (جب کہ بال صاف نہ کیے جائیں) یہاں نجاست کے اجزا کا رہ جانا غالب ہے۔

فتح الباري - لابن حجر -  میں ہے:

"وقال أبو شامة: "العانة" الشعر النابت على الركب بفتح الراء والكاف، و هو ما انحدر من البطن فكان تحت الثنية وفوق الفرج، و قيل: لكل فخذ ركب، و قيل: ظاهر الفرج، و قيل: الفرج بنفسه سواء كان من رجل أو امرأة، قال: و يستحب إماطة الشعر عن القبل والدبر بل هو من الدبر أولى خوفًا من أن يعلق شيء من الغائط فلايزيله المستنجي إلا بالماء ولايتمكن من إزالته بالاستجمار، قال: و يقوم التنور مكان الحلق، وكذلك النتف والقص، و قد سئل أحمد عن أخذ العانة بالمقراض، فقال: أرجو أن يجزئ، قيل: فالنتف؟ قال: و هل يقوى على هذا أحد؟ و قال ابن دقيق العيد: قال أهل اللغة: "العانة" الشعر النابت على الفرج، و قيل: هو منبت الشعر". ( 10 / 343)

عون المعبود شرح سنن أبي داود  میں ہے:

"( وحلق العانة ): قال النووي : المراد بالعانة الشعر الذي فوق ذكر الرجل وحواليه وكذا الشعر الذي حوالي فرج المرأة، ونقل عن أبي العباس بن سريج: أنه الشعر النابت حول حلقة الدبر، فتحصل عن مجموع هذا استحباب حلق جميع ما على القبل والدبر وحولهما، لكن قال ابن دقيق العيد: قال أهل اللغة: العانة: الشعر النابت على الفرج، وقيل: هو منبت الشعر، فكأن الذي ذهب إلى استحباب حلق ما حول الدبر ذكره بطريق القياس". ( 1 / 81)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"وأما الاستحداد فهو حلق العانة سمي استحداداً؛ لاستعمال الحديدة وهي الموسى، وهو سنة، والمراد به نظافة ذلك الموضع، والأفضل فيه الحلق، ويجوز بالقص والنتف والنورة، والمراد بالعانة: الشعر الذي فوق ذكر الرجل وحواليه وكذاك الشعر الذي حوالي فرج المرأة". (شرح النووي علی مسلم، کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، 3 /148، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويبتدئ في حلق العانة من تحت السرة، ولو عالج بالنورة في العانة يجوز، كذا في الغرائب".  (الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها، 5 / 358)

فتاوی شامی میں ہے:

"والعانة: الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة، ومثلها شعر الدبر، بل هو أولى بالإزالة ؛ لئلايتعلق به شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر". (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، فصل في الإحرام و صفة المفرد، 2 / 481، ط: سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108202002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں