بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زائد بل بنانے کاحکم


سوال

 اگر کوئی دکاندار کسی بل میں (جو صحیح قیمتیں لگا کر مثلاّ 10,000 کا بن رہا ہو) اس میں ردوبدل کر کے اسے 25,000 کا بناۓ اور اس میں سے 10,000 کمیشن کے طور پر کسی کو دے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے، جو شخص کمیشن لے رہا ہے وہ اپنے Client کو بھروسہ دلا کر اس کی دکان  سے سامان دلاتا ہے  کہ آپ کو صحیح جگہ سے سامان دلا رہا ہوں تو کیا یہ صحیح ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں دکان دار کا اصل بل سے زیادہ کا بل بناکر  دینا غلط بیانی  دھوکہ دہی کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے نیز گناہ کے کام میں معاونت بھی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں  نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے،  اگر دکان دار اصل مقدار سے زیادہ پیسوں کا بل بناکر ملازم کو دیتا ہے تو ایسا کرنا شرعا نا جائز و حرام ہونے کے ساتھ ساتھ اصل مالکان پر ظلم وزیادتی کی بنا پر دکان دار  گناہ گار بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ بھی ہوگا، لہٰذا اسے اس طرح کے کاموں سے بچنا  لازم اور ضروری ہے ۔

اسی طرح کوئی شخص کسی کےلیے کوئی چیز خرید تا ہے  تواس کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے، اور وکالت کی بنیاد امانت پر ہوتی ہے، چنانچہ وکیل اپنے موکل کے لیے جو چیز جتنے روپے کی خریدے گا اتنے ہی پیسے اپنے موکل سے لے سکتا ہے،  اس سے زیادہ پیسے بتاکر لینا جھوٹ اور خیانت پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناجائز  وحرام ہے،زیر نظر مسئلہ میں اگر کوئی خریدار کسی شخص پر اعتماد اور بھروسہ کر کے اس کے توسط سے کسی دکان سے کوئی چیز خرید ے جبکہ اس خریدار نے اس شخص کو اپنا کمیشن ایجنٹ نہیں بنایا اس کے ساتھ اجرت /کمیشن  کا کوئی معاہدہ نہیں ہو ا اور نہ ہی یہ شخص دکاندار کاکمیشن ایجنٹ ہے تو ایسی صورت میں اس شخص کا مذکورہ خریدار سے جھوٹ اور دھوکہ دہی کے ذریعے کسی قسم کاکمیشن لینا ناجائز ہے ،    ہاں البتہ اگر خریدار اسے اپنا اجیر /کمیشن ایجنٹ مقرر کرے  کہ تم مجھے فلاں سامان دلوادو میں تمہیں اتنی اجرت دونگا تو اس طرح کا معاملہ  کرنا جائز  ہوگا اور الگ سے اجرت لینا بھی جائز ہو گا  ، اسی طرح اگر  دکاندار نے اس شخص کے ساتھ کمیشن کا معاملہ طے کیا ہو  کہ تم میرے پاس خریدار لے کر آؤمیں تمہیں اتنا کمشن دونگا تو ایسی صورت میں دکاندار کا اپنے نفع میں سے اس کو کمیشن دینا جائز ہو گا ، تاہم کمیشن کی وجہ سے اس چیز کی قیمت میں اضافہ کردینا جائز نہیں ہو گا ۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے :

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

 (کتاب البیوع،4 / 560،سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس۔۔ الخ".

(کتاب الاجارۃ، 63/6،سعيد)

درر الحکام في شرح مجلة الأحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". 

(الکتاب الحادي عشر: الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں