میرے ذہن میں ہر وقت وسوسے رہتے ہیں ،کوئی بھی عبادت کرتا ہوں میرے ذہن میں فحش خیالات موجود ہوتے ہیں، اسلام اور پاک ہستیوں کے حوالے عجیب سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں، میں اللہ کے حضور رو رو کر دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ میرے ذہن کو پاک کردے، لیکن خیالات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، عبادت کے دوران ان خیالات کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں ،لیکن وہی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت میں ہوں، وظائف سب کر رہا ہوں پھر بھی ذہن پاک نہیں ہورہا، میرے ذہن میں بار بار خیال آرہا ہے کہ میرا رب مجھ سے ناراض ہے، اس وقت میں مسجد نبوی میں ہوں ، تلاوت، ذکر ، تہجد ،صدقہ اور نوافل کا اہتمام بھی کر رہا ہوں، لیکن دل میں ہے کہ میرا رب مجھ سے ناراض ہے ،جس کی وجہ سے میرا ذہن پاک نہیں ہورہا اور میرے بہت سارے کاموں کے راستے بند ہيں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک مسلسل بھیج رہا ہوں اور زیارت نصیب ہونے کے وظائف بھی کر رہا ہوں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب نہیں ہورہی، بہت پریشانی ہے، دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ رب کو کیسے مناؤں؟ اور عبادت کرتے ہوئے وہم رہتے ہے کہ کہیں کپڑے ناپاک تو نہیں ، کہیں پیشاب کے قطرے تو نہیں نکلے، جب دیکھتا ہوں تو کچھ نہیں ہوتا، بہت تنگ آیا ہوں، کبھی کبھی تو دل کرتا ہے کہ اپنی جان لے لوں، سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں؟ میں نیک اور پاک بننا چاہتا ہوں، میں رب کی دوستی کا طلب گار ہوں۔
واضح رہے” وہم“ اور”وسوسہ“ کے مرض میں عمومًا شیطانی اثرات کا عمل دخل ہوتا ہے؛ تاکہ مؤمن آدمی تسلی سے نہ پاکی حاصل کرسکے اور اس ناپاکی کے وسوسے سے اس کی عبادات بھی متاثرہوجائے، یا ذہن میں کفریہ خیالات آتے ہیں جس کی وجہ سے انسان مختلف شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے،ایسےغیر اختیاری وسوسے آنا اور اسے بُرا سمجھنا ایمان کی علامت ہے، جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: «أو قد وجدتموه» قالوا: نعم. قال: «ذاك صريح الإيمان» . رواه مسلم."
(کتاب الأیمان، باب الوسوسة، رقم الحدیث:64، ج:1، ص:26، ط: المکتب الاسلامی)
’’ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ : ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ (یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔‘‘
لہذا ان خیالات اور وسوسوں سے پریشان نہ ہوں ، اور ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، اور دل میں جگہ نہ دی جائے، ان کے مقتضی پر عمل یا لوگوں کے سامنے ان کا اظہار نہ ہو، بلکہ ان کا خیال جھڑک کر ذکر اللہ کی کثرت کا اہتمام کرنا چاہیے، جیساکہ صحیح بخاری میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يأتي الشيطان أحدكم فيقول: من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ حتى يقول: من خلق ربك؟ فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته "
(كتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس وجنوده، 1194/3، الرقم:3103، ط:دار اليمامة)
"ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے تو کہتا ہے کہ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب وہ یہاں تک پہنچے تو اللہ سے پناہ مانگو اور اس وسوسہ سے اپنے آپ کو روک لو"۔
لہذا ان وسوسوں کے علاج کے لیے مذکورہ نسخہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کیا جائے یا پانچوں نمازیں باجماعت کا اہمتام کیا جائے، ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل اعمال کریں:
(1) أعُوذُ بِالله (2)" اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه" کا ورد کرے۔ (3) "هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم" (4) نیز"رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ"کا کثرت سے ورد بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے،نیز مسجد نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا ہونا ضروری نہیں،لہذا اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100291
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن